طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آہی گئے۔ نتائج کیا آئے گویا قیامت آ گئی۔ مسلم دانشوران بالخصوص نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر نئی حکومت کے تعلق سے اپنی تشویش اور بے چینیوں کا اظہار شروع کر دیا۔ بعض نے تو یہاں تک لکھ ڈالا کہ ہندوستان سے جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا۔ ایک صاحب نے لکھا کہ ”ہندوستان کبھی سیکولر تھا ہی نہیں اس بار نیا صرف یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنا یہ نقاب نوچ پھینکا ہے، اب پردہ اٹھ چکا ہے۔”مسلمانوں کی تشویش کچھ بے جا بھی نہیں۔ ملک کے تخت پر ایک ایسا شخص قابض ہونے والا ہے بلکہ ہو چکا ہے جس کے قاتل اور خونی ہونے میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں لیکن تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اعداد و شمار کے آئینہ میں ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو وزارت عظمی کے لیے منتخب کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہندوستان سے جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا یا ہندوستانی عوام نے اپنے چہروں پر پڑے برسوں کے جمہوری نقاب کو اتار پھینکا۔ علامہ اقبال نے برسوں قبل کہا تھا جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
علامہ اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جمہوریت میں ٹھیک طرح سے بندوں کو گنا بھی نہیں جاتا۔اب اس انتخاب کو ہی دیکھئے ۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے عوام نے ہندوتوا وادی طاقتوں کو قبول کر لیا ہے لیکن اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت آج بھی سیکولر ذہنیت کی حامل ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر اس انتخابات کے اعداد و شمار کا سرسری جائزہ لیجیے۔آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اس انتخابات میں بھی ہندوستانی عوام نے سیکولر طاقتوں کاہی ساتھ دیا ہے۔ اب دہلی کی سات نشستوں کو ہی دیکھئے۔ یہاں کے مجموعی ووٹ سیکولر امیدواروں کو ہی ملے ہیں۔ مشرقی دہلی سے گرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مہیش گری کوفتح حاصل ہوئی ہے لیکن عام آدمی پارٹی کے راج موہن رائے کے 381739 اور کانگریس کے سندیپ دکشت کے 203240ووٹ مجموعی اعتبار سے مہیش گری کے 572202 ووٹ سے زیادہ ہیں۔ نئی دہلی سے عام آدمی پارٹی کے امیدوار آشیش کھیتان کے 290642 ووٹ اور کانگریس کے اجئے ماکن کے182893 ووٹ مجموعی اعتبار سے اس حلقہ کی فاتح بی جے پی امیدوار میناکشی لیکھی کے 453350 ووٹ سے زیادہ ہیں۔
اسی طرح دہلی کے شمال مشرق ، شمال مغرب، جنوبی دہلی اور مغربی دہلی حلقوں سے بھی گرجہ بی جے پی امیدواروں کی فتح ہوئی ہے لیکن ان تمام حلقوں سے عام آدمی پارٹی اور کانگریس پارٹی کو ملنے والے مجموعی ووٹ بی جے پی امیدواروں کو ملنے والے ووٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔
بہار میں اس مرتبہ سیکولر ووٹ کی بری طرح بندر بانٹ ہوئی ہے۔ہندوتواوادی طاقتوں نے جہاں متحد ہو کر بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو کامیاب بنانے میں جی جان لگا دیا وہیں سیکولر ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے ترقیاتی کاموں کا ”واسطہ” دے کر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ، وہیں فرقہ پرست طاقتوں کو کچلنے کے عزائم کے ساتھ لالو یادو اور ان کی پارٹی راشتریہ جنتا دل کو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نظر آنے لگا۔ لالو نے کانگریس کے اشتراک سے سیکولر ووٹرس کو لبھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ بہار کی چند نشستوں کا جائزہ لیجیے اور فیصلہ کیجیے کہ بہار کے عوام سیکولر ہیں یا ہندوتوا وادی۔ بہار میں بیگو سرائے سے بی جے پی کے امیدوار بھولا سنگھ کو کامیابی ملی ہے لیکن راشتریہ جنتا دل کے محمد تنویر حسن اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے راجندر پرساد سنگھ کے مجموعی ووٹ بھولا سنگھ کے 428227 سے زیادہ ہیں۔
Vote
گیا سے بے جی پے کے کامیاب امیدوار ہری مانجھی کو 326230 ووٹ ملے ہیں۔ ان کے مقابل راشٹریہ جنتا دل کے رام جی مانجھی کو 210726 اور جنتا دل یو کے جتن رام مانجھی کو 131828 ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ان دونوں کے مجموعی ووٹ ہری مانجھی سے زیادہ نہیں ہیں؟ بہار میں جہان آباد سے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر ارون کمار کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ راشٹریہ سمتا پارٹی این ڈی اے میں شامل ہے۔
یہاں بھی سرندر پرساد یادو (آر جے ڈی) اور انیل کمار شرما( جے ڈی یو) کے مجموعی ووٹ ڈاکٹر ارون کمار کے ووٹ سے زیادہ ہیں۔ جموئی میں چراغ پاسوان (ایل جے پی) نے آر جے ڈی کے سدھانشو شیکھر کو شکست دی ہے لیکن سدھانشو شیکھر اور ادئے نارائن چودھری (جے ڈی یو) کے مجموعی ووٹ یہاں بھی بے جے پی کو ملنے والے ووٹ سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح ویشالی، اجیارپور، اور کھگڑیا حلقوں سے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی کے امیدواروںکو کامیابی ضرور ملی ہے لیکن سیکولر ووٹ مجموعی اعتبار سے زیادہ ہیں۔
اتر پردیش میں علی گڑھ، الہ آباد، امبیڈکر نگر، امروہہ، باغپت، بہرائچ، بارہ بنکی ، بلیا اور دیگر حلقوں سے بی جے پی اور اُس کی حلیف پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں لیکن یہاں بھی سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس پارٹی کے امیدواروں کو ملنے والے مجموعی ووٹ ہر اعتبار سے زیادہ ہیں۔ یہ محض ایک سرسری سا جائزہ ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ کھولئے اور پورے ہندوستان کے اعداد و شمار کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت سیکولر ہے۔
Indian People
ہندوستانی عوام نے اپنے طور پر سیکولر امیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی لیکن سیکولر طاقتوں کا انتشار ہندوتوا وادی طاقت کو مضبوط کرنے کی وجہ بنا ۔ یہ انتخاب سیکولر پارٹیوں اور ہندوستان کے سیکولر عوام کے لیے ایک سبق ہے، ایک تازیانہ ہے۔ ہندوستان کے بقا و تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ سیکولر طاقتیں اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب ، ملک کی سلامتی، امن اور بھائی چارے کے لیے متحد ہو جائیں۔ہندوستان سیکولر ملک تھا ،ہے اور رہے گابشرطیکہ سیکولر طاقتیں ملکی مفادات کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیں۔