تحریر: علی عمران شاہین بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوئوں کی نت نئی مہمات سامنے آتی ہی رہتی ہیں۔ حال ہی میں ”لو ّ جہاد” کے مذموم پراپیگنڈے میں زبر دست تیزی کے ساتھ بھارتی ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک اور انتہائی مذموم اور خطرناک مہم شروع کی ہے جس کے تحت وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر منشیات کا پھیلائو کر رہے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے منصوبہ بندی کی گئی تھی تو اس کے لئے بھارت سرکار نے منشیات کا بھی سہارا لیا تھا اور سکھ نوجوانوں کو ایک سازش کے تحت منشیات کا عادی بنایا تھا۔ اس وقت بھارت نے سکھ تحریک آزادی کچلنے کے لئے 5 سطحوں پر کام کیا تھا ۔ i۔ منشیات کا پھیلائو۔ ii۔ مشرقی پنجاب میں ترقیاتی کام ۔iii۔ سکھوں میں اعلیٰ ملکی و قومی عہدوں کی تقسیم۔ (iv) سکھوں کی بڑے پیمانے پر کینیڈا روانگی اور وہاں روزگار کے انتظامات۔ v۔ مصروف جنگ برسرپیکار سکھوں کے خلاف بے رحم آپریشن۔ یوں ان اقدامات سے دیکھتے ہی دیکھتے سکھ تحریک تقریباً دم توڑ گئی۔ حیران کن طور پر اس وقت کینیڈا کی کم از کم 2 ریاستوں کے وزرائے اعظم بھارتی نژاد سکھ ہیں لیکن بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے انتہائی ظالمانہ اور حیران کن پالیسی دیکھئے کہ اس نے جہاں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے صرف اور صرف طاقت اور قتل وغارت گری کا حربہ استعمال کر رکھا ہے ‘وہیں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک انتہائی منافقانہ اور عجیب ہے۔ 2 کروڑ سکھوں کو رام کرنے کے لئے بھارت نے اگر ان کے خلاف منشیات اور طاقت کا ہتھیار استعمال کیا تو پھر انہیں خوش کرکے ہر صورت ساتھ ملائے رکھنے کے لئے ان پر بے پناہ عنایات کی بھی بارش کی لیکن 27 کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک ہی حربہ ہے اور وہ ہے طاقت جسے آپ مار دھاڑ ‘ دھونس’ جبر و ظلم’ ناانصافی و محرومی یا ایساکوئی نام دے لیں۔کیونکہ اس سب کا استعمال ہو رہا ہے۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میںبھی بہت بڑے پیمانے پر منشیات پھیلانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے لیکن اسے وہاں کے علمائے کرام اور حریت قیادت نے دن رات کی محنت اور ذہن سازی سے روک رکھا ہے۔ بھارت کے اندر مسلم علاقے اب بڑے پیمانے پر اس کا نشانہ ہیں۔ اس مہم کو ”لو ّ جہاد” کے مقابلے میں ”لو ّ ڈرگز” کا نام دیا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں منشیات کو پھیلانے اور عام کرنے کے لئے ہندوئوں نے جعلی طور پر خود کو نومسلم شو کرنا بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں اردو بھارتی روزنامہ صحافت کی یہ خبر جو اس کے نمائندہ سعید حمید نے دی ہے’ ملاحظہ ہو۔ لو ّجہاد” کی من گھڑت سازش کے جواب میں (ممبئی کے علاقوں) ممبرا کوسہ گوونڈی’ بھیونڈی’ مالونی’ مدنپورہ جے جے اسپتال ‘ بھنڈی بازار میں سرگرم ماہرین نفسیات ڈاکٹروں اور سماجی کارکنان کا انکشاف’ مسلمانوں کے لئے پارٹی ڈرگز اور لوڈرگز ‘ کلب ڈرگز کا جال بچھایا۔اب یہ بات متفقہ طور پر مسلم علاقوں میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں ‘ ماہرین نفسیات اورسماجی کارکنوں کے دس سالہ تجربات کے ذریعہ طے ہوچکی ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں (خصوصا2002ء کے گجرات فسادات کے بعد) ممبئی و آس پاس کے شہروں کے مسلم اکثریتی علاقوں بھنڈی بازار’ جے جے اسپتال’ ناگپاڑہ’ مدنپورہ’ دھاراوی’ نوپاڑہ’ بہرام پاڑہ (باندرہ) کرلا’ کوونڈی’ مولنی ملائو سے لے کر ممبرا کوسہ بھیونڈی’ میرا روڈ’ نالا سوپارہ تک مسلم نوجوانوں اور خصوصا اسکول و کالج کے مسلم طلباء و طالبات میں دواؤں’ گولیوں’ کیپسول’ انجکشن کی شکل میں نشے کی جو عادت پھیلی ہے’ اس کا اثر غیر مسلم (ہندو) علاقوں میں بہت کم ہے۔ (بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے) مسلم علاقوں میں کیمسٹ بازار یا دوائیوں کی دکانوں یا آن لائن کیمسٹ ویب سائٹ کے ذریعہ فروخت ہونے والی نشیلی دوائوں کا اثر بہت زیادہ ہے اور اس کی تباہی کے اب جو اثرات نظر آرہے ہیں ‘اس سے یوں محسوس ہوتاہے کہ گویا کیمسٹ لابی میں سرگرم مسلم دشمن انتہائی کٹر ہندو تو ا وادی طبقے نے نام نہاد لوجہاد کے جواب میں مسلم نوجوانوں کو تباہ کرنے کے لئے”لو ڈرگز” نامی سازشی مہم چھیڑ دی ہے۔
Drugs
بہت سی نشہ آور گولیاں جن پر ایم آر پی قیمت تیس روپے ہے’ اور جو شیڈولڈڈرگ کے طور پر صرف ڈاکٹری نسخے اور ڈاکٹر کی سفارش پر ہی فروخت کی جاسکتی ہے’ وہ نشہ کے عادی افراد کو ڈھائی سو تین سو روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آخر فارماسیوٹیکل ڈرگ مافیا کو جس نے مسلم اکثریتی علاقوں میں تباہی و بربادی پھیلادی ہے’ اس تجارت میں کس قدر منافع حاصل ہو رہا ہے۔ کئی ڈرگ مافیا کھلے عام یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر وہ کھانسی کی دوائیں نشہ کا شکار افراد کو فروخت کرتے ہیں’ تو اس میں سے ہر بوتل پر تین روپیہ پولیس کو ہفتہ جاتا ہے۔ نشہ آور ادویات فروخت کرنے والے دکاندار ایک دن میں ہزاروں بوتلیں نشے کے عادی افراد کو فروخت کرتے رہے ہیں ا س لئے پولیس کو کس قدر ہفتہ ملتا رہاہوگا’ یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔”آگے چل کر لکھاگیا ہے کہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ممبئی تھانے اور مہاراشٹر میں کیمیکل اور دوائیوں کی ہول سیل اور ریٹیل تجارت کے ایک حصے پر ہندو توا وادی کی کٹر انتہا پسند تنظیموں کی لابی حاوی ہے اور انتہا پسند طاقتیں جن میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق گجرات سے ہے’ ”لوجہاد” جیسی من گھڑت سازش کے پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں’ وہ مسلم دشمن کیمسٹ لابی کی مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے ”لوڈرگس” مہم کا بھی حصہ ہے جس کے تحت پہلے مسلم نوجوانوں کو مفت میں نشہ آور ادویات اور دوائیں فراہم کی جاتی ہیں ‘ کالجوں’ اسکولوں میں یاان کے اطراف’ کالج کے دوستوں کی پارٹیوں میں نائٹ کلبوں اور ڈانس کلبوں میں برتھ ڈے اور مختلف پارٹیوں میں مسلم نوجوانوں کونشہ متعارف کروایا جاتا ہے۔جب وہ نشے کا شکار بن جاتے ہیں’ تب وہ خود ہی آن لائن ، منافع خور کیمسٹوں یا منشیات فروشوں سے یہ زہر خریدتے ہیں۔
لو ّ جہاد کے حوالے سے ہندوئوں کا پروپیگنڈہ اتنا موثر ہو رہا ہے کہ ہندو اب بیٹیوں کو مسلمانوں کے اثرات سے بچانے کے نام پر جادوگروں اور عاملوں کے پاس لے جا کرجھاڑ پھونک اور جادو ٹونہ تک کروا رہے ہیں۔ اس طرح کی ایک خبر اترپردیش کے علاقہ سہارنپور سے آئی کہ وہاں ایک 61 سالہ ہندو عامل بابا جس کانام بابا رجک داس ہے’ کے پاس بڑی تعداد ہندو میں اپنی لڑکیاں لاتے ہیں ،ان پر جادو ٹونہ اور جھاڑ پھونک کرواتے ہیں۔ہندوئوں کی”لو جہاد ” کی یہ مہم مسلمانوں کے خلاف اتنی منظم ہے کہ کئی جگہ ہندو لڑکیاں خود مسلمانوں سے یارانہ لگاتی ہیں اور پھر کہنا شروع کر دیتی ہیں کہ اس مسلم نوجوان نے اسے بہلایا پھسلایا تھا۔ اس طرح کا واقعہ گزشتہ دنوں کانپور میں پیش آیا جہاں بھارت کی قومی سطح پر کھیلنے والی ایک لڑکی نے بس کنڈکٹر وسیم پر الزام عائد کیا کہ اس نے اسے بہلایا پھسلایا تھا اور پھر اغوا کیا تھا اور اس کا مذہب تبدیل کردیا تھا۔ یوں اس نے اب وسیم کے خاندان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور وسیم مارے جانے کے خوف سے علاقے سے فرار ہے۔
مساجد مٹائو مہم کے تحت ممبئی شہر اور ریاست مہاراشٹر میں اب بڑی تعداد میں مساجد شدیدخطرات سے دو چار ہوگئی ہیں۔وہ ممبئی شہر جو چند سال میں تیزی سے پھیلا۔ بڑے بڑے پلازے اور کاروباری مراکز بنے جس سے وہ دنیا کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن بن گیا لیکن مسلم آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد نہ بڑھ سکی۔ اب یہاں ایک ایک مسجد میں مسلمان باری باری نمازجمعہ ادا کرتے ہیں کیونکہ انہیں سڑکوں پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں شدید مزاحمت بلکہ ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ دوسرابڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے مجبور ہوکربہت ساری مساجد مدارس کے نام پر بنائی ہیں جنہیں قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ اب مسلمان اس حوالے سے بہت پریشان ہیں جو کہ شہر کی ترقی اور نئی نئی تعمیرات کے دوران ان مساجد سے بنے گا۔ بھارت سرکار کی کوشش ہے کہ ان مساجد کو مدرسہ کہہ کر بآسانی شہر سے دور منتقل کردیاجائے تاکہ شہر کی حدود میں مسلمان اور ان کے اثرات اس بہانے نکال باہر کئے جائیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مسلمانوں اور ان کے حقوق کے لئے دنیا میں کہیں کوئی آواز اٹھتی نظر نہیں آتی جس سے اس بات امکان بھی نظر تا ہے کہ کہیں بھارت میں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی نہ شروع ہو جائے۔