کیا بی جے پی اقتدار میں دوبارہ آئے گی یا ا س بار بھارتی دیش باسی کانگریس پر اعتماد کرے گئے اس کا فیصلے آنے والے انتخابات میں ہو گا۔ بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کا مرحلہ وار سلسلہ 11 اپریل سے 19 مئی (39 دن) تک جاری رہے گی جس میں ایوان زیریں کی 543 نشست پر سات مرحلوں پر چنائو الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہو گا اور کسی بھی پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے 272 نشستیں درکار ہوں گی۔
بھارت کے حالیہ الیکشن میں تقریبا 90 کروڑ بھارتی شہریوں کے 10 لاکھ پولنگ سٹیشنوں کا پلان ترتیب دیا گیا جن میں عوام حق رائے دہی کے ذریعے سے اپنی مرضی کی پارٹی کا انتخاب کرے گئے جب کہ ووٹوں کی گنتی اور انتجائج کا اعلان 23 مئی کو کیا جائے گا۔ مرکز کے زیر اہتمام علاقوں کے ساتھ 20 ریاستوں کے 91 حلقوں میں چنائو کی تیاری مکمل کر لی گئی ہیں ۔ پہلے مرحلے میں لوک سبھا کی 25 سیٹیں ریاست آندھرا پردیش کی ہیں ، تلنگانہ کی 17 نشستیں اور اتر کھنڈ کی 5 سیٹوں پر پولنگ ہوگی۔ اروناچل پردیش ، میگھا لا کی 2 نشست، مزورام ، ناگالینڈ ، سکم ، انڈمان و نکو بار، لکشا دویپ کی 1 نشست پر مختلف پارٹی نے اپنے امیدوار اتار دئیے ہیں۔
مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کس کی حکومت ہو گئی: موجودہ صورت حال میں بھارت کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی 15 برس سے اقتدار میں ہے جبکہ راجستھان میں وہ پانچ سال پہلے اقتدار میں آئی تھی اس سے پہلے گذشتہ 25 برس سے کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلسل دو بار جیت نہیں حاصل کر سکی ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے انتخابات میں بڑی تبدیلی ا سکتی ہے یہ تو انتخابات کے بعد پتا چلے گا کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان کی عوام بی جے پی کو اقتدار کے قابل سمجھتی ہے ۔ بھارتی جنتا پارٹی کی کامیابی اس کی بہت بڑی نفسیاتی اور سیاسی جیت ہو گی جب کہ دوسری طرف ہار کانگریس کو اور زیادہ پست کر دے گی اور پارٹی کے رہنما راہل گاندھی کی قیادت اور انتخابی اہلیت کے بارے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے شکوک مزید پختہ ہو جائیں گے۔
ریاست تلنگانہ میں مسلم آبادی کی رائے اہمیت کی حامل ہے : بھارتی جنوبی ریاست تلنگانہ میں ایک مکمل طور علاقائی جماعت اقتدار میں ہے جب کہ شمال مشرقی ریاست میزورم میں کانگریس برسراقتدار ہے۔ اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کی 12.7 فیصد ہے جو کہ آئندہ انتخابات میں کلیدی ادا کرے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست کے مسلمان کل 119 سیٹوں میں 30 سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم ووٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام تر سیاسی پارٹیاں اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
ماضی میں اتر پردیش کی ریاست میں دلت اور مسلم ووٹ کے بغیر کوئی حکومت سازی ناممکن ہے : اترپردیش جیسی بڑی اور اہم ریاست کی بات کی جائے تو وہاں 20 اضلاع میں مسلم ووٹرز کی اکثریت جبکہ 49 اضلاع میں دلت ووٹر کی برتری نظر آتی ہے ۔ دلت 49 اضلاع میں اس لئے اکثریت میں ہیں کہ یہاں دلتوں کی70 کےقریب ذاتیں مقیم ہیں اور صرف اترپردیش میں ہی دلت ووٹروں کی اوسط کل آبادی کا21 فیصد سے زائد ہے اور مسلم ووٹروں کی اوسط 20 فیصد یعنی دونوں مل کر41 فیصد زیادہ کا کمال دکھا سکتے ہیں۔ دلتوں اور شیڈولڈ کاسٹ کی بالترتیب 84 اور 47 لوک سبھا نشستیں ہیں یعنی شیڈولڈ کاسٹ اور ٹرائس کے لئے کل 131 نشستیں ریزرو ہیں ۔ اترپردیش کی نشستیں 80 ہیں اور ان 80 میں سے 17 شیڈولڈ کاسٹ وغیرہ کے لئے ہیں۔اگر ہم اترپردیش میں مجموعی صورت حال کا جائزہ لیں تو 131 ریزو لوک سبھائی نشستوں میں سے 67 سیٹیں بی جے پی کے پاس جب کہ 13 سیٹیں کانگریس نے جیت رکھی ہیں ۔ ترنول کانگریس کے پاس 12 اور بیجو جنتا دل ، اناڈی ایم کے پاس سات سات نشستیں رکھتی ہیں۔ پچھلے سات دہائیوں سے دونوں پارٹیاں مسلم اور ولت ووٹ بینک کو کیش کرانے کی پالیسی سے فائدہ اٹھاتیں رہیں ہیں اب آنے والے انتخابات ہی بتائیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔