نئی دلی (جیوڈیسک) بھارتی پارلیمان کے مسلم رکن اسدالدین اویسی نے ملک میں تیزی سے پھیلتی عدم برداشت اور انتہا پسندی پر سوالات اٹھا کر ایوان پرسکتہ طاری کر دیا۔
بھارتی لوک سبھا کے رکن اسدالدین بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت پر ایوان میں برس پڑے اور کہا کہ آزادی کے 68 سال بعد بھی بھارتی مسلمانوں کو پاکستانی سمجھا جاتا ہے، گائے کے ذبیحے پر دس سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے اور کانگریس جیسی جماعت بھی سزا کی حمایت کر تی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ اگر میں بی جے پی کی مخالفت کروں تو مجھے قوم پرست کہا جاتاہے، اگر کانگریس کی مخالفت میں بولوں تو سیکولرزم کا مخالف سمجھا جاتا ہے اس ملک میں یہ کیوں ہو رہا ہے۔
اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ کرناٹکا اوراترپردیش میں جاکربات نہیں کرسکتا، ملک کی 20 فیصد مسلم آبادی کو مقدمات کا سامنا ہے، مغربی بنگال میں 49 فیصد ، مہاراشٹرا میں 29 اور اترپردیش میں 29 فیصد مسلمان مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، کیا یہی برداشت ہے جب کہ مسلمان اور دلتوں کو شہروں میں گھر خریدنے یا کرائے پر لینے کی آذادی کیوں نہیں ہے اورمسلم علاقوں میں اسکولوں سے زیادہ تھانے بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے وزیر داخلہ سے درخواست کی کہ نیشنل ہیومن رائٹس کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی وزارت میں ایسا سیل بنائیں جہاں انتہا پسند ہندوؤں کی نگرانی کی جا سکے اور فسادات کی تحقیقات کے لئے کمیشن کو مکمل اختیارات دیئے جائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔