تحریر : محمد قاسم حمدان جرمنی کے شہر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس سے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو گفتگو کی اس پر پاکستان کے ایک دو نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کا کہنا ہے کہ سکرین پر انہیں چہرہ تو خواجہ آصف کا دکھائی دے رہا تھا لیکن زبان منوہر پاریکر کی تھی۔ یعنی زبان میری ہے ‘بات ان کی کامعاملہ تھا۔ موصوف نے کہا کہ معاشرے کے لئے حافظ محمد سعیدd خطرے کا باعث ہیں اس لئے انہیں فورتھ شیڈول کے تحت حراست میں لیا گیا ہے اور یہ قانون ان لوگوں پر لگایا جاتا ہے جو سماج دشمن ہو تے ہیں۔ خواجہ آصف کو ذرا بھر خیال نہ آیا کہ وہ یہ الزام حافظ سعید نہیں بلکہ پاکستان پر لگارہے ہیں’قوم تو بھارت کے لگائے تازہ زخموں سے ابھی کراہ رہی تھی ،سوگ کی کیفیت سے پورے ملک کی فضاؤں میں سناٹا طای ہے ایسے غمگسار ماحول میں ،ھو کے اس عالم میں انہوں نے مال روڈ اور سیہون سے بھی بڑا دھماکہ کر دیا ۔خواجہ صاحب کا یہ دھماکا حافظ صاحب کی گرفتاری کے بعد بھارت کی ڈومور کی شروعات کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ خواجہ صاحب الزام لگانے سے کوئی مجرم نہیں بنتا بلکہ انہیں ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے حافظ صاحب پر الزام اگر لگایا ہے’ ثبوت آپ کے ذمہ ہیں ،کسی قطری شہزادے کے خط کو ثبوت نہیں کہا جا سکتا ۔حافظ سعید کے جرائم جاننا ہیں تو سنئے ان کا پہلا جرم اس وقت سرزد ہوا ۔ جب 2005 ء میں کشمیر میں پلک جھپکتے ہی منظر بدل گیا تھا۔
زلزلہ نے آن واحد میں قیامت صغریٰ ڈھا دی۔ مظفرآباد اور بالا کوٹ سمیت کشمیر کا بڑا حصہ ‘ اس کی بستیاں ویران ہو گئیں خوشیاں آہوں میں اور قہقہے بکاؤں میں بدل گئے ۔گھر اور مکان اپنے مکینوں کے لئے قبرستاں بن گئے۔ قدرت کی اس تنبیہ سے کتنے ہی خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے ،تباہی نے پتھر دلوں کو بھی رلا دیا۔ اس موقع پر حافظ سعید اور ان کے جانثار میدان میں اترے شہروں کے ساتھ ساتھ بلند پہاڑوں پر جہاں حکومت کا پہنچنا بھی دشوار تھا یہ جانثار پہنچے ،ریسکیو کیا ۔زخموں سے چور ،جاں بلب بچوں بوڑھوں کو اپنی کمر پر اٹھا کر ہسپتالوں تک پہنچایا ،خیمہ بستیاں آباد کیں ،کھانا اور لباس دیا’ سکول اور مساجد بنائیں ۔ان کی خدمات کا اعتراف خود امریکی پائیلٹوں نے کیا ۔ اوریواین نے ان کے کام کی ستائش پرمبنی ایک خط لکھا۔کاش !خواجہ آصف حافظ صاحب کا یہ جرم بھی میونخ میں آئے دنیا بھر کے وفود کو بتاتے کہ جب پاکستان کی تاریخ میں بدترین سیلاب آیا تو FIFکے جوانوں نے کے پی کے سے لے کر سندھ تک آفت میں گھرے لوگوں کی مدد کی ۔پاک آرمی کے جوانوں سے ملکر ریسکیو آپریشن کئے۔
آرمی اپنے اصول کے مطابق اندھیرا ہوتے ہی کام بند کر دیتی لیکن FIFکے جوان رات کی تاریکیوں میں بپھرتی سیلابی موجو ں سے ٹکرا کر درختوں سے لٹکے اور ٹیلوں پر اٹکے غیبی مدد کے منتظر لوگوں کو موت کے منہ سے نکالتے رہے ۔ان کے لئے خیمہ بستیاں آباد کیں اور خوراک وادویات مہیا کیں ۔اس وقت فلاح انسانیت فاونڈیشن کے پنجاب میں آٹھ جبکہ حیدآباد،کراچی اور تھر پارکر میں بڑے بڑے ہسپتال ہیں۔ جہاں ہر قسم کی جدید سہولت موجود ہے ،ملک میں فری ڈسپینسریوں کا جال بچھا ہے ۔تقریبا ایک ہزار ایمبولینسز کا بہت بڑا بیٹرا دکھی اور بے سہارا لوگوں کی خدمت میں پیش پیش ہے۔FIF کے پاس 66ہزار سے زائدبلڈڈونرزرجسٹرڈہیں۔54ہزار خون کی بوتلیں فراہم کیں’سات لاکھ افرادکے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے۔ 6ہزار میڈیکل کیمپ لگوائے۔آواران اور تھرپارکر میں3400 آبی منصوبوں سے روزانہ 10لاکھ لوگ پیاس بجھاتے ہیں۔
Pakistan
مرکز القادسیہ میں اب بھی روزانہ ہر نماز کے موقع پر چار پانچ افراد کی طرف سے بلڈ کے لئے اعلان ہوتا ہے حافظ صاحب مایوس لوگوں کی آس و امید ہیں ان کا جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے پڑھا لکھا پنجاب کی بجائے پڑھا لکھا پاکستان کا ماٹو اختیار کیا اور کراچی سے پشاور تک مدارس ،سکولز اور کالجز کا سسٹم قائم کیا جہاں ستر ہزار طلبا زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دنیا کو یہ بھی بتایا جاتا کہ کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جس شخص نے سب سے پہلے فتوی دیا اس کا نام حافظ محمدسعید ہے۔ حافظ صاحب کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی با ر تمام مکاتب فکر کو ایک چھتری تلے جمع کیا بلوچستان جہاں حکمرانوں کی زیادتیوں’ کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور آگ وخون کے اس کھیل میں پاکستان کا پرچم جلایا جانے لگا ،حکومت کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی تو حافظ صاحب نے ان بلوچوں کے دل خدمت سے جیت کر انہیں قومی دھارے میں شامل کیا ۔حافظ صاحب نے جب یہ اعلان کیا کہ وہ جماعتوں کے تشخص سے بالا تر ہو کر صرف پاکستان کا پرچم اٹھائیں گے تو بلوچ جوانوں نے بھارتی آرزوؤں کا جنازہ نکال کر پاکستان کا علم سر بلند کر دیا۔
خواجہ صاحب کیا پاکستان کا علم اٹھانا دہشت گردی ہے ۔کاش آپ بھی میونخ میں پاکستان کا پرچم اٹھاتے لیکن آپ نے تو بھارت کے سہولت کار کاکردار ادا کرکے بھارتی ترنگا اٹھا لیا اگر پاکستان کی نمائندگی کی ہوتی تو اس کے آثار بھی نظر آتے ،کاش آپ دنیا کو یہ بتا پاتے کہ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار بنا ہے پاکستان کے دس ہزار فوجی جوان شہید ہوئے اتنے فوجی تو پاک بھارت جنگو ں میں بھی شہید نہیں ہوئے ۔امریکہ کے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں اتنے فوجی ہلاک نہیں ہوئے ۔پچاس ہزار سویلین کی شہادت ہوئی ۔اگر آپ واقعتا پاکستان کے وزیر دفاع ہوتے تو دنیا کو ببانگ دھل بتاتے کہ سمجھوتہ ایکسپریس بھارت کی سرکاری دہشت گردی کی بین اور بدترین مثال ہے ۔بھارت کی عدالتوں نے حاضر سروس کرنل پروہت کو اس کا ماسٹر مائنڈقرار دیا ۔آرمی پبلک سکول پشاورمیں کس وحشت وسربریت کا گھناؤنا جرم کیا گیا ،کوئٹہ میں وکلاء پر خودکش حملہ ‘جی ایچ کیواورمساجد پرحملے’ حالیہ مال روڈ ‘سیہون شریف اور مناواں پولیس پرحملہ ان سب کی کڑیاں ایک ہیں اور ان کا کھرابھارت کوجاتاہے۔ بھارت کے شہرگجرات میں مسلمانوں سے جوخون کی ہولی کھیلی گئی۔1984ء میں سکھوں کوجس بے دردی سے قتل کیاگیااور ہندوستان میں ہندودہشت گردی پرآپ نے شترمرغ کی طرح آنکھیں کیوں بند کرلیں۔بھارت کی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت کلبھوشن کاذکرکیوں نہیں کیا۔رکیئے! حافظ صاحب کاسب سے بڑاجرم بھی سن لیں وہ کشمیرکی آزادی کی بات کرتے ہیں ۔انہوں نے 2017ء کوکشمیرکی آزادی کاسال قراردیا۔
kashmir violence
اقوام عالم کویہ نظرکیوں نہیں آتاکہ مظلوم کشمیریوں کی تیسری نسل قابض بھارتی فوج کی چتامیں جل رہی ہے۔ اپنے گھر بار’املاک کی بربادی’ چادر چاردیواری کے تقدس کی پامالی کے باوجود ان مظلوموں کا جذبہ حریت کوہ ہمالیہ سے بلند ہے مگر ہمارے یہ شیر ایک ہی ٹرمپ کارڈ پر ڈھیرہوکر بھیڑ بن گئے اور انڈیا کے سامنے سینہ تاننے کی بجائے اس کی سہولت کاری سے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کرنے لگے۔ہمارے حکمرانوں نے بڑی مستعدی کامظاہرہ کرکے بھارت کوجماعةا لدعوة کی دہشت گردی سے بچالیا لیکن کشمیر یوں کو بھارتی فوجیوں کی دہشت گردی سے بچانے کے لیے کوئی خیال نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں شہادتوں کایہ عالم ہے کہ وہاں کاہرگھرشہداء کاگھرانہ بن چکاہے اورانہیں ان شہادتوں پرتاسف نہیںفخرہے۔ہم تو ڈان لیکس جیسی سازشوں کے جال بن کر اور بھارتی بالادستی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے کشمیرکی قیمت لگانے کے اشارے دے رہے ہیں۔ مگرسلام ہے کشمیریوں کو جو اپنے شہداء کوپاکستان کے پرچم میں لپیٹ کرساری دنیاکواپنا وطن ہونے کاپتہ دے رہے ہیں۔ خواجہ صاحب آپ نے حافظ صاحب کومعاشرہ کے لیے خطرہ قرار دے کر پابندکیااورانہوں نے پھر عدالت سے رجوع کرلیاہے۔ اللہ کی مدد سے وہ اب ساتویں بار بھی سرخروہوں گے۔ ان شاء اللہ۔