تحریر : سید توقیر زیدی عالمی معاہدے مقدس ہوتے ہیں اور ملکوں کے درمیان سال ہا سال بلکہ صدیوں چلتے ہیں، لیکن بھارت میں اگر مودی کے سر پر سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا بھوت سوار ہے تو امریکہ کے نئے منتخب صدر ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل ختم کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، مودی نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان کو بھارت سے جانے والے دریائی پانی کو روک دیا جائیگا۔ انہیں شاید علم نہیں کہ دنیا میں بہت سے دریا ایسے ہیں جو کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں ہیں۔ پاکستان میں جو دریائی پانی آتا ہے اور جس کے منابع بھارت کے اندر ہیں، یہ کسی خیرات کے نتیجے میں پاکستان کو نہیں ملے، یہ عالمی قوانین کے طابع ہیں اور بھارت اس معاہدے میں کوئی یکطرفہ تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں، جس کے تحت پاکستان اپنے حصے کا دریائی پانی استعمال کر رہا ہے۔
مودی کو معلوم ہے کہ پاکستان کو صحرا بنا دینے کی دھمکی کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ عالمی بینک جیسے ادارے کی نگرانی میں یہ معاہدہ ہوا تھا، لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جو سادہ لوح جنتا پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے ہوائی دعوے سے مطمئن نہیں ہوئی، جس کو معلوم ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت جتنی مرضی ٹکریں مارتا رہے، پاکستانی فوج کی آہنی دیوار کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہوتا رہے گا۔ اب اس جنتا سے ریاستی انتخابات میں ووٹ لینے کے لئے اور کیا لالی پاپ دیا جائیگا؟ جو 8 نومبر کے بعد بینکوں کے باہر لائن لگائے کھڑی ہے۔ جہاں زرعی پیداوار سڑکوں پر رل رہی ہے اور اس کا کوئی خریدار نہیں۔ ٹماٹر جیسی جلد ضائع ہونے والی سبزی پانچ روپے کلو تک بک رہی ہے کہ کوئی گاہک نہیں۔ بڑے نوٹوں کی منسوخی کے بعد پورے ملک میں ہیجان کی ایک کیفیت ہے۔ لوگ ذلت و خواری میں مبتلا ہیں۔
Indus Water Treaty
ستر سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات ملتوی ہو رہی ہیں، اس فضا میں جب مودی کی پارٹی کو الیکشن میں نمایاں شکست نظر آرہی ہے، مودی نے انہیں مطمئن کرنے کے لئے ان کے سامنے پھر پاکستان کا ہوا کھڑا کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پانی بھارت سے پاکستان کے دریاؤں میں جاتا ہے، ہم یہ پانی بند کر دیں گے۔ مودی نے جب چھ ماہ پہلے اس معاملے پر ہذیانی گفتگو شروع کی تھی تو ان کی پارٹی کے اندر سے انہیں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ جنتا کو گمراہ نہ کریں، پاکستان عالمی قوانین کے تحت اپنے حصے کا پانی حاصل کر رہا ہے۔ یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ کرنا ممکن نہیں، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی الیکشن میں ووٹروں کو رام کرنے کے لئے کوئی دوسری گیدڑ سنگھی نہیں۔ اس لئے وہ ہیرپھیر کر پانی کی دھمکی دیتے ہیں یا پھر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جس کا جواب جنرل راحیل شریف نے یہ دیا تھا کہ اگر پاکستان نے سرجیکل اسٹرائیک کی تو بھارت کی آنے والی نسلوں کو اس کے قصے نصاب میں پڑھائے جائیں گے۔ دوسری جانب امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دل و دماغ پر ایک معاہدہ سوار ہے جسے وہ منسوخ کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ یہ ایران نیو کلیئر ڈیل ہے جو کئی سال کی طویل سفارتی کوششوں کے بعد ایران اور امریکہ سمیت پانچ دوسرے یورپی ملکوں کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ اگر صرف امریکہ اور ایران کے درمیان ہوتا تو شاید امریکہ اپنے طور پر اسے ختم کر دیتا، لیکن اس میں پانچ دوسرے یورپی ملک بھی شامل ہیں۔ امریکی ری پبلکن اس معاہدے سے کبھی خوش نہیں رہے، جب صدر اوبامہ ایران کے ساتھ یہ ڈیل کر رہے تھے تو ری پبلکن ارکان کانگرس نے معاہدے کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن صدر اوباما ہر حالت میں ایران کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر کانگرس نے اس معاہدے کی منظوری نہ دی تو وہ کانگرس کے فیصلے کو صدارتی ویٹو کے ذریعے ناکام بنا دیں گے۔
اگرچہ اس کی نوبت نہ آئی اور اوباما ایران نیو کلیئر ڈیل کی کانگرس سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تجزیہ بی این پی کے مطابق تاہم ری پبلکن ارکان کانگرس نے ایرانی صدر کو ایک دھمکی آمیز خط ضرور لکھ دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ یہ معاہدہ نہ کریں، ورنہ جب بھی ری پبلکن صدر آئیگا وہ یہ معاہدہ منسوخ کر دے گا۔ اس دوران ری پبلکن ارکان کی آشیرباد سے اسرائیلی وزیراعظم نے کانگرس سے خطاب کیا، جنہوں نے اپنے حطاب میں صدر اوباما کو بھی اس معاہدے کی بنا پر ہدف تنقید بنایا اور ایران کو بھی للکارا، ایران تو خیر اسرائیلی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا قائل ہے، اس لئے اس پر تو کسی دھمکی کا کیا اثر ہوتا۔ خود ایران کے اندر اس معاہدے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور ایرانی رہنما آیت اللہ العظمیٰ علی خامنہ ای بھی اس معاہدے کے خلاف ہیں۔
اس لئے اگر امریکہ کا نیا صدر اس معاہدے کو ختم بھی کر دے تو بھی آدھا ایران اس کی منسوخی پر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئیگا۔ اس لئے اگر امریکہ یہ معاہدہ منسوخ کرتا ہے تو یہ صرف امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے لئے خوشی کا موقع نہیں ہو گا۔ خود ایران میں وہ حلقے جشن فتح منائیں گے جو صدر حسن روحانی کے فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ ایسی صورت میں ممکن ہے امریکہ کی اسرائیل نوازی کی حس کوئی طمانیت محسوس کرے، لیکن امریکہ کو بطور مجموعی کیا حاصل ہوگا، اس پر ابھی تک امریکہ میں اس کے مخالفوں کی جانب سے تفصیلی روشنی نہیں ڈالی گئی۔