ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کو ہلاک ہونے والے کسانوں کے لواحقین سے ملاقات کی آج بالآخر اجازت دے دی۔ تاہم اس واقعے کو تین دن گزر جانے کے باوجود اب تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس واقعے میں نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں اتوار کے روز کسانوں کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کر دینے کے واقعے میں تاحال کسی بھی ملزم کے گرفتار نہ کیے جانے سے کسانوں اور عوام میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بھی مرکز اور ریاست میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتوں کے رویوں کی سخت مذمت کی ہے۔
لکھیم پور کھیری میں بی جے پی کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں پر اتوار کے روز بھارت کے معاون وزیر داخلہ اجے کمار مشرا کے بیٹے اشیش مشرا اور ان کے ساتھیوں نے مبینہ طورپر اپنی گاڑیاں چڑھا دی تھیں۔ اس واقعے میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں ایک صحافی بھی شامل تھا۔ ہلاک شدگان میں سے ایک کسان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے اس کسان کو گولی بھی ماری گئی تھی۔ حالانکہ پولیس نے اس الزام کی تردید کی ہے تاہم مرنے والے کسان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے کی اس کے رشتہ داروں کی درخواست مسترد کر دی گئی اور اس شہری کی آخری رسومات بھی آناً فاناً ادا کر دی گئیں۔
کسان تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے مرکزی وزیر اجے کمار مشرا کے فوراً استعفے اور ان کے بیٹے اور دیگر ذمے دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس نے گرچہ اشیش مشرا کے خلاف قتل کا کیس درج کر لیا ہے تاہم تین دن گزرنے کے باوجود اب تک اشیش مشرا یا کسی اور نامزد ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
ریاست کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے البتہ کسانوں کی ناراضگی کم کرنے کے لیے ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو پچاس پچاس لاکھ روپے فی کس بطور معاوضہ اور ایک ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا اعلان کیا ہے۔
اترپردیش میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حکمران بی جے پی بھارت میں سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اور سب سے بڑی ریاست میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت تمام طریقے استعمال کر رہی ہے۔ ان میں مذہب تبدیل کروانے کے الزامات کے تحت مسلم مذہبی رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔
اسی دوران موجودہ صورت حال پر معاون وزیر داخلہ اجے کمار مشرا نے آج بدھ کو ملکی وزیر داخلہ امیت شاہ سے تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا۔
انتظامیہ اور پولیس نے صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں کو لکھیم پور کھیری جانے سے روک دیا تھا۔ اس دوران کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانکا گاندھی سمیت کئی رہنماؤں کو حراست میں بھی لے لیا گیا تھا۔
ترنمول کانگریس کے ممبران پارلیمان کا ایک وفد بہرحال پولیس کو چکمہ دے کر متاثرین تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جب پولیس نے ان کی شناخت معلوم کی، تو انہوں نے خود کو سیاح بتایا تھا۔
پولیس نے آج بدھ کو بعد دوپہر اپوزیشن لیڈروں کو متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے لیے جانے کی اجازت بھی دے دی۔ ریاست کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اشونی کمار اوستھی کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کے صرف پانچ رہنماؤں کو جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما راہول گاندھی متاثرین سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ لیکن جب پولیس نے انہیں اپنی ہدایت کے مطابق سفر کرنے پر مجبور کیا، تو وہ ناراض ہو گئے اور دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اس سے قبل حکومت نے راہول گاندھی کو دہلی سے لکھنؤ جانے سے بھی روک دیا تھا، جس کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ”ہم متاثرین سے ملاقات کے لیے جانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں روک دیا گیا ہے جبکہ وزیر اور ان کے بیٹے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ ملک میں آج جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہے۔”
پریس کونسل آف انڈیا نے لکھیم پور کھیری میں تشدد میں ایک صحافی کی ہلاکت پر اتر پردیش حکومت سے رپورٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کونسل آف انڈیا نے ایک بیان میں کہا کہ تنظیم نے 3 اکتوہر کو لکھیم پور کھیری میں تشدد کے دوران ایک صحافی کی ہلاکت کا از خود نوٹس لیا ہے اور اترپردیش حکومت سے کہا ہے کہ وہ تمام حقائق کے ساتھ اس حوالے سے اپنی رپورٹ جلد از جلد ارسال کرے۔
اس تشدد میں رمن کشیئپ نامی ایک 30 سالہ مقامی صحافی ہلاک ہو گئے تھے، جو ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔
دریں اثنا ریاستی حکومت نے تشدد کے اس واقعے کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کی چھان بین سپریم کورٹ کے کسی موجودہ یا سابق جج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔