نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس بھارت کو مزید اپنے لڑاکے طیارے رافیل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ نئی دہلی کو اس ڈیل پر بدعنوانی اور اقرباء پروری کے الزامات کا سامنا ہے تاہم پیرس حکومت اس کے باوجود اس معاہدے پر قائم ہے۔
بھارت خود کو درپیش جغرافیائی چیلنجز کے پیش نظر اپنی عمر رسیدہ فوج کو جدید اور مزید طاقت ور بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات کر رہا ہے۔
نئی دہلی حکومت کئی برسوں پہلے ہی یورپی ملک فرانس کے ساتھ فرانسیسی لڑاکا طیاروں رافیل کا معاہدہ کر چُکی ہے اور اسے بھارت کے سب سے بڑے دفاعی معاہدوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ تاہم اس معاہدے کی شروعات سے اب تک یہ ایک بڑا تنازعہ بنا ہوا ہے۔
2015 ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس ایوی ایشن کمپنی Dassault (داسو)سے 36 رافیل طیارے خریدنے کی ڈیل کی تھی تاکہ بھارت کی زنگ آلود فضائیہ کو جدید اور مضبوط بنایا جا سکے۔
جولائی کے اواخر میں بھارتی وزیر دفاع اجے بھٹ نے میڈیا کو بتایا کے طیاروں کی ترسیل شیڈول کے مطابق ہو گی، جس کے بعد سے بھارت کو 26 طیارے مل بھی چُکے ہیں۔
بقیہ طیاروں کی رواں برس یعنی 2021 ء کے اواخر تک بھارت کو حوالگی متوقع ہے۔ تاہم 7.8 بلین یورو یا 9.4 بلین ڈالر مالیت کا یہ معاہدہ بدعنوانی اور تعصب کے الزامات کی زد میں ہے۔
قومی مالیاتی استغاثہ کے دفتر پی این ایف کے مطابق 2 جولائی کو فرانس نے بدعنوانی کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔
مودی کا 2015 ء کا معاہدہ بھارت کے متحدہ ترقی پسند اتحاد ‘یو پی اے‘ کے کمپنی داسو کے ساتھ معادے کے کئی سال بعد ہوا، جس کی قیادت اپوزیشن کانگریس پارٹی نے کی۔
یہ مذاکرات دراصل 2012 ء میں بھارت کے میڈیم ملٹی رول کامبیٹ ایئر کرافٹ ایم ایم آر سی اے کے مقابلے میں اس فرانسیسی کمپنی کے فاتح قرار پانے کے بعد طے پایا تھا۔ اس کا مقصد بھارتی فوج کو 126 طیارے فراہم کرنا تھا۔
تاہم یو پی اے اور داسو کے مابین نااتفاقی اس لیے پیدا ہو گئی کہ طے یہ پایا تھا کہ 108 طیارے بھارت میں سرکاری ایروناٹکس لمیٹڈ کمپنی ایچ اے ایل تیار کرے گی۔ داسو کو انڈین ایرو اسپیس کمپنی کو ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس پیچیدہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے کی بھارتی کمپنی کی صلاحیتوں پر شکوک و شبہات تھے۔
اس دوران مودی کا نیا معاہدہ، جس کی مالیت 7.8 بلین ڈالر ہے، کے بارے میں یہ رپورٹ کافی حد تک حیرت کا سبب بنی کہ اس کا حتمی معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔
تاہم مودی اور اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے درمیان اپریل 2015 ء میں ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ 36 رافیل جیٹ طیاروں کو اڑا کر فرانس سے بھارت پہنچایا جائے گا۔ جولائی 2015 ء میں 126 جیٹ طیاروں کا ایم ایم آر سی اے ٹینڈر ختم کر دیا گیا۔
2016 ء میں مودی سرکار کی طرف سے اس نئے معاہدے کے طےپانے کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی بڑی جیت قرار دیا۔
اس کے ساتھ ہی حکمران جماعت بی جے پی نے اپنے لیڈر مودی کو ایک کامیاب اور با صلاحیت مذاکرات کار بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔
کانگریس پارٹی میں نریندر مودی کے سیاسی مخالفین نے تیزی سے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘رافیل جیٹ ‘ کی خریداری بھارت کا ” اب تک کا سب سے بڑا اسکینڈل ‘ ہے۔
کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت اس معاہدے کی قیمت اُس سے کہیں زیادہ ادا کرے گی، جو یو پی اے حکومت نے لگائی تھی۔ نیز یہ کہ بی جے پی حکومت عوامی کاروبار پر نجی بزنس کو زیادہ ترجیح دے رہی ہے۔
اس الزام کا اشارہ دراصل بھارت کی ‘ریلائنس ایرو اسپیس کمپنی‘ کے سربراہ انیل امبانی کی طرف تھا، جو نریندر مودی سے بہت قریبی تعلق رکھنے والے بزنس مین ہیں۔ ریلائنس کمپنی کا ایروناٹکس میں کوئی سابقہ تجریہ نہیں ہے تاہم اس نے رافیل ڈیل میں بھارت کی سرکاری ایروناٹکس لمیٹڈ کمپنی ایچ اے ایل کے متبادل کے طور پر اپنی جگہ بنا لی۔