تحریر : سید توقیر حسین زیدی وزیر دفاع کا پاکستان کو غیر مستحکم کرنیکی سازشوں میں بھارتی ریاستی عناصر کے ملوث ہونیکا عندیہ اور بھارت کی کرنل پروہت کو کلین چٹ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سینٹ کو بھارتی جاسوس کلبھوشن کے بارے میں ”ان کیمرہ” بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”را” کے اس ایجنٹ کی گرفتاری سکیورٹی اداروں کی بڑی کامیابی ہے۔ اسکی گرفتاری کے بعد بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا گیا اور یہ معاملہ ہر فورم پر اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلئے تمام سفارتی چینل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی ایجنسی ”را” نے افغانستان میں قائم بھارتی سفارتی مشن میں سیل قائم کر رکھے ہیں جبکہ ”را” ہیڈکوارٹرز میں پاکستان کے اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ انکے بقول کلبھوشن کی گرفتاری سے ہمیں راہداری منصوبے کیخلاف بھارتی سازشوں کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کے حالات خراب کرنے میں ”را” ملوث ہے اور اب یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ بھارت اپنے ریاستی عناصر کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام کی کارروائیوں میں مصروف ہے’ دوسری جانب مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے لندن میں برطانیہ کے مشیر برائے قومی سلامتی سرمارک لائل گرانٹ سے ملاقات کے دوران اور ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ”را” کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور لائن آف کنٹرول کے علاوہ سیزفائر کی خلاف ورزیاں اسلام آباد کیلئے باعث تشویش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی بحالی اور پائیدار ترقی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا آغاز تو تقسیم ہند کے عمل میں تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی کر دیا تھا اور اس دشمنی کا اصل پس منظر بھارت کی کوکھ سے پاکستان کا تخلیق ہونا تھا کیونکہ ہندو لیڈر تخلیق پاکستان کو اپنے مہابھارت اور اکھنڈ بھارت کے خواب چکناچور ہونے سے تعبیر کررہے تھے۔ اسی تناظر میں ولبھ بھائی پٹیل اور جواہر لال نہرو نے قیام پاکستان کے بعد بڑ ماری کہ پاکستان کی کوئی اقتصادی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے یہ بہت جلد کمزور ہو کر واپس ہندوستان کے ساتھ آملے گا۔ اسی تصور کے تحت انہوں نے خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت کے باوجود اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرکے اسکے حل کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا مگر جب یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعہ کشمیری عوام کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور پنڈت جی کو کشمیری عوام کیلئے رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی تو وہ یواین قراردادوں سے ہی منحرف ہو گئے اور بھارتی افواج داخل کرکے کشمیر کے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا جو آج کے دن تک برقرار ہے۔ یہ ساری بھارتی سازشیں پاکستان کو اقتصادی طور پر غیرمستحکم کرنے کی ہی تھیں چنانچہ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنا’ اسے دولخت کرنا اور اپنی ایٹمی طاقت و ٹیکنالوجی کے ذریعے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنا اسی بھارتی نیت و سازش کا شاخسانہ ہے۔
India-Pakistan
بے شک پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کے بھارتی عزائم ناکام ہوئے اور یہ ملک خداداد آج اسکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اس لئے پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنے کی اسکی سازشیں پروان چڑھتی ہی رہیں گی جس سے غافل ہونے کے ہم کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ بھارتی آئین میں اسے سیکولر سٹیٹ قرار دیا گیا ہے تاہم پاکستان اور مسلم دشمنی میں بھارت نے اپنا اصل جنونی ہندو ریاست کا چہرہ بے نقاب کیاہے۔ بالخصوص انتہاء پسند ہندوئوں کی نمائندہ بی جے پی کے موجودہ اقتدار میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود فخریہ انداز میں پاکستان دشمنی کا اظہار کرتے نہیں تھکتے جبکہ وہ پاکستان کو دولخت کرنے پر منتج ہونیوالی مکتی باہنی کی ”پاکستان توڑدو” تحریک میں خود عملی طور پر شریک ہونے کا ”کریڈٹ” بھی جنونی ہندوئوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے خود لے چکے ہیں۔
اسی تناظر میں انہوں نے چین کے تعاون سے بننے والی اقتصادی راہداری کی مخالفت کا بھی خود ہی بیڑہ اٹھایا اور چین کا ہنگامی دورہ کرکے اسے اقتصادی راہداری منصوبے سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد انہوں نے اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کا مشن بھارتی ایجنسی ”را” کو سونپا۔ اس مقصد کیلئے ”را” کو اربوں روپے کے فنڈز بھی جاری کئے گئے۔ اب بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری عمل میں آئی ہے تو ”را” کے ذریعے اقتصادی راہداری سبوتاڑ کرنے کا سارا بھارتی منصوبہ بھی طشت ازبام ہوگیا ہے جبکہ اس سے قبل بھارت ”را” ہی کے ذریعہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سبوتاڑ کرانے میں بھی کامیاب ہوچکا ہے کیونکہ اس منصوبے کے ذریعے بھی پاکستان کو اقتصادی استحکام حاصل ہونا تھا۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارت کو پاکستان کا اقتصادی استحکام کسی صورت گوارا نہیں کیونکہ پاکستان کے اقتصادی استحکام سے اسکی سلامتی کو ختم کرنے کے بھارتی خواب چکناچور ہوتے ہیں چنانچہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کی یہ کھلی پالیسی ہے کہ اس پر وار کرنے کا کوئی بھی موقع اور کوئی بھی ذریعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔
اس کیلئے بھارت کا سازشی ذہن جغرافیائی سرحدوں کی بھی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے اندر سے ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں میں بھی اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چنانچہ ہمارے حکمرانوں اور بھارت سے دوستی کے خواہش مند دوسرے حلقوں کی جانب سے چاہے بھارت کیساتھ تعلقات کی بحالی’ تجارت اور ثقافتی تجارتی وفود کے تبادلے کی جو بھی حکمت عملی طے کرلی جائے’ بھارت کی انتہاء پسند ہندو قیادت اس پر رام نہیں ہو سکتی اور وہ بغل میں چھری’ منہ میں رام رام والی پالیسی پر ہی کاربند رہے گی’ بالخصوص بھارت کی موجودہ مودی سرکار تو پاکستان بھارت دشمنی کو باقاعدہ ایک ایجنڈے کے طور پر فروغ دے رہی ہے جس کیلئے بھارت کی مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات بھی تنگ کردیا گیا ہے۔
Narendra Modi
مودی چونکہ خود بھارتی ریاست گجرات میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلم کش فسادات کی قیادت کرتے رہے ہیں جن کی بنیاد پر ان کیخلاف سنگین مقدمات بھی درج ہوئے جبکہ بی جے پی کے پہلے اقتدار میں مسلم دشمنی کو انتہاء تک پہنچاتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس لئے بی جے پی کے اقتدار کے دوران تو بھارت کی جانب سے پاکستان کیلئے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس پر کام بھی شروع کرادیا جبکہ اب مالیگائوں مسلم کش فسادات کے سرغنہ کرنل پروہت کے اعتراف جرم کے باوجود اسے بھارتی تحقیقاتی ادارے نے کلین چٹ دے دی ہے کہ اسکے سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ بھارتی طرز عمل پاکستان کے ساتھ دشمنی برقرار ررکھنے اور فروغ دینے کا ہی عکاس ہے اس لئے ہمیں بھی بھارت کے معاملہ میں بہرصورت ”ایسے کو تیسا” والی پالیسی ہی اختیار کرنا ہوگی۔ بھارت کا جنگی جنون اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم اسکے ایٹمی اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ حصول سے ہی واضح ہیں جبکہ پاکستان پر کسی نہ کسی دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر دوطرفہ مذاکرات کو سبوتاڑ کرنا بھی بھارتی پالیسی کا اہم نکتہ ہے جس پر وہ مشرف کے دور سے کار بند ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت نے امرتسر پولیس تھانے اور پھر پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالا اور دنیا کو دکھائی گئی پاکستان بھارت دوستی کی فضا کی بھی پاسداری نہ کی اور پاکستان کو موردالزام ٹھہرانے کا جارحانہ انداز اختیار کئے رکھا جبکہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں کے ثبوت پا کر بھی ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس کیلئے ریشہ خطمی پالیسی میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی اور پٹھانکوٹ دہشتگردی پر بھارتی تقاضے قبول کرکے جہاں اپنی کمزوری کا تاثر دیا گیا وہیں دہشتگردی میں ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو بھی تقویت پہنچائی گئی۔
اب جبکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کے ذریعہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارتی ریاستی عناصر ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اسکے اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشوں میں مصروف ہیں جبکہ بھارت کنٹرول لائن اور سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا بھی تسلسل کیساتھ مرتکب ہورہا ہے تو یہ صورتحال بھارت سے محض رسمی احتجاج کی متقاضی نہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تمام عالمی قیادتوں اور اداروں کو بھارتی عزائم سے آگاہ کرنے کیلئے ملک کے تمام سفارتی چینل بروئے کار لانے کا عندیہ دیا ہے تو اسے اب محض رسمی کارروائی تک محدود نہیں رہنے دینا چاہیے بلکہ اسے قومی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ قرار دیکر عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے اور اسکی ہر ممکنہ جارحیت کا بروقت اور موثر توڑ کرلیا جائے۔ موجودہ حالات میں بھارت سے دوستی کی پالیسی ہمیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔