تحریر: افضال احمد بھارتی پنجاب کے ضلع مہسانا کے ایک گائوں کی پنچائت نے 18 سال سے کم عمر اور نابالغ لڑکیوں کے موبائل فون رکھنے یا استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے’ خلاف ورزی کی صورت میں 2100 روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا’ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی گھجرات کے ضلع مہسانا کے ایک گائوں کی پنچائت نے نابالغ لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے کی پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ موبائل فون کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کا رجحان پڑھائی کی طرف کم ہوتا جا رہا ہے جبکہ موبائل فون استعمال کرنے والی لڑکیوں کے والدین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے پنچائت کے سر پنچ دیو شی واکر کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر اور نابالغ لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے اور ”عشق معشوقی” کے نام پر خاندان کی بدنامی کا بڑا ذریعہ یہ ”کم بخت موبائل” بن رہا ہے جس کی وجہ سے پنچائت کو ایسا فیصلہ کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنچائت کے اس فیصلے کی پورے گائوں نے تائید کی ہے لہٰذا اب کوئی چھوٹے خاندان سے ہو یا کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہو’ پنچائت کے فیصلے کی خلاف ورزی پر ہر صورت جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
میری نظر میں مسئلہ موبائل فون کا نہیں ہے ‘ جتنا آج کے دور میں نوجوان نسل کو مختلف ذرائع کے ذریعے برائی سے آگاہ کر دیا گیا ہے’ نوجوان نسل کا اپنے جذبات پر قابو نہیں رہا ‘ روز اخبارات بھرے ہوتے ہوئے ہوتے ہیں فلاں کے ساتھ فلاں نے زیادتی کر دی ‘ اس کا حل یہ ہے کہ لڑکی’ لڑکے کی اسلام کی پیروی کرتے ہوئے نوجوان ہوتے ہی شادی کر دی جائے۔ جس سے معاشرے میں برائی کم ہونے کے ساتھ ساتھ کئی خاندانوں کی عزتیں برباد ہونے سے بچ سکیں گی۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے والدین اپنی اولاد کی شادیوں کی طرف توجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے گھروں سے عزتوں کے جنازے نکل رہے ہیں۔والدین کو چاہئے کہ عزتوں کے جنازے اٹھانے سے بہتر ہے کہ اپنی بیٹیوں کی وقت پر شادی کر کے عزت سے ڈولی میں بیٹھا کر رخصت کریں۔
Mobile Phone
موبائل فون کو اپنی ایجاد کے ابتدائی دور میں اُمراء اور طبقہ اشرافیہ نے غالباً نمائش دولت و ثروت کے لئے ہاتھوں ہاتھ لیا’ متوسط طبقہ نے بطور فیشن اختیار کیا اور اب وہ وقت آیا ہے کہ یہ سوغات ضرورت زندگی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ موبائل فون کی حیثیت درحقیقت اس تلوار اور نشتر کی ہے جس کا جائز و ناجائز استعمال موبائل ہولڈر کے ذاتی اختیار میں ہے۔ اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا درست اور مناسب استعمال کرے’ مگر آج بدقسمتی سے بیشتر خواتین و حضرات اس بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔موبائل فون یقینا اس اعتبار سے ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کے فوائد و منافع نے انسانی زندگی میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں اور یہ انسان کے لئے کئی سہولتوں کا باعث بنا ہے۔ اس کی بدولت فاصلے مزید سکڑ گئے ہیں’ تجارتی لین دین میں بڑی تیزی آگئی ہے’ جس سے معاشی ترقی کی رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وہ لوگ جو دیارِ غیر میں اپنے پیاروں سے سینکڑوں ہزاروں میل دور رابطہ کے لئے ہفتوں بلکہ مہینوں بعد ڈاک خرچ برداشت کرکے یا پھر ٹیلی فون کے ذریعہ روابطہ استوار کرتے تھے اب تو موبائل فون کے ذریعے تقریباً ہر وقت رابطہ میں رہتے ہیں’ اس طرح یقینا یہ آپس کے تعلقات کو بہتر اور مضبوط بنانے میں بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔ دور حاضر کا یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے کہ جدید ذرائع مواصلات جس میں بالخصوص موبائل بھی شامل ہے کے ذریعے انسان کے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطے ہیں’ مگر گھر اور گھر کی دیوار سے متصل ہمسایہ کی تکلیف و پریشانی کی اسے خبر نہیں ہوتی’ کیونکہ دلوں سے ہمدردی و غم خواری کے جذبات کی گرمی غالباً ختم ہو کر سرد ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ موبائل فون سے کینسر ہو سکتا ہے’ ڈبلیو ایچ او نے صارفین سے کہا ہے کہ وہ اس کے استعمال کے محفوظ طریقے اختیار کریں’ اس ایجاد کے بارے میں یہ اب تک کا سب سے قطعی سائنسی فیصلہ ہے اور 21 معتبر سائنسی جائزوں کے بعد جو دنیا بھر کے 14 ممالک میں لئے گئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے لیکن واضح رہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک یہ متنازع ہے کہ موبائل فون اس قدر خطرناک ہوتا ہے البتہ احتیاط پر زیادہ استعمال ہونے والی ایجاد کے بارے میں عالمی ادارئہ صحت کی پہلی سب سے بڑی تحقیق سے پتہ یہ چلا کہ موبائل فون ممکنہ طور پر انسانوں کے لئے کارسینوجینک یعنی کینسر پیدا کرنے کا سبب ہے۔
سسی پنوں’ ہیر رانجھا’ لیلیٰ مجنوں اور سوہنی مہینوال کے معاشقے کی مثالیں یوں تو ہر دور میں مل جاتی ہیں مگر عصر حاضر میں اس سلسلہ میں موبائل فون کا استعمال عاشق حضرات کے لئے وصال کے مواقع بہم پہنچانے میں بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔ موبائل کی بدولت کئی معزز خاندانوں کی عزت خاک میں مل چکی ہے اور کئی خاندان بس دو چار ہونے والے ہوں گے لہٰذا یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ موبائل فون کے غلط استعمال کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لئے والدین کی تربیت اولاد کے حوالے سے ذمہ داری پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
موبائل فون کے غلط اور بے جا استعمال کے نتیجہ میں جو نقصانات بڑی خوفناک صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں ان میں اخلاقی بے راہ روی اور بدکاری کو فروغ حاصل ہونا ہے۔ نہایت بیہودہ اور فحش قسم کے ایس ایم ایس کا باہم تبادلہ کیا جاتا ہے۔
Bans Mobile Phones for Girls
موبائل میں گندی فحش اور عریاں تصاویر’ فحش گانے ہمارے نوجوان طبقہ کے ذہن و فکر کو آلودہ کر رہے ہیں اور یہ بات قوی تباہی اور ہماری رہی سہی اخلاقی حالت کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ کبھی زمینی’ سمندری اور فضائی آلودگی کا چرچا تھا مگر اب آلودگی کی اقسام میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے’ لہٰذا سوشل میڈیا کی آلودگی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ذہنی و فکری آلودگی دراصل نئی اقسام ہیں۔
ہم سب اسلامی تعلیمات سے جتنا مرضی دور بھاگ لیں’ آخر ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کو لانا ہی پڑے گا’ اسلام نے کہا ہے کہ لڑکی’ لڑکے کی بالغ ہوتے ہی شادی کر دو’ اب جب ہماری نوجوان لڑکیاں گھروں سے بھاگنے لگی ہیں تو ہمیں اندازہ ہونے لگا ہے کہ لڑکیاں 18 سال میں جوان ہو جاتی ہیں نہیں تو ہم تو 30-35 سال کی لڑکی کو بھی یہی کہتے ہیں کہ ابھی تو بچی ہے ‘شادی بھی کر دیں گے جب تھوڑی سمجھدار ہو گی’ وہ 30-35 تک شادی کا انتظار کرتے کرتے گھر سے بھاگ جاتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ بچی نہیں تھی۔
بات یہ ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ نے دینا ہی دینا ہے ہم میں سے اکثر لوگوں کے والدین بالکل اَن پڑھ ہیں رزق اللہ نے انہیں بھی دیا ہے تو ہم سب کھا پی کر بڑے ہوئے ہیں’ میں اعلیٰ تعلیم کے بالکل خلاف نہیں ہوں اعلیٰ تعلیم لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی حاصل کرنی چاہئے لیکن یہ جو آج کل اعلیٰ تعلیم کی آڑ میں عزتوں کی نیلامی ہو رہی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ شادیاں وقت پر کر دی جائیں اور تعلیم ساتھ جاری رکھی جائے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی موبائل فون کا سٹوڈنٹس کے پاس کام ہی کیا ہے؟ اگر ضرورت ہے بھی تو اپنے والدین میں سے کسی کا موبائل استعمال کریں’ موبائل پر کون سی تعلیم حاصل ہو رہی ہے۔