تحریر : ابن نیاز اڑی سیکٹر میں اپنے ١٧ فوجی جہنم واصل اور ٢٠ سے زیادہ زخمی کروا کر بھی چین نہیں آرہا۔ کیسے آئے، یہ تو بہانے تھے۔ ایک تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت نہ کرنے کا دوسرا پاکستان کو آنکھیں دکھانے کا۔بتایا جاتا ہے کہ اڑی سیکٹر جس جگہ پر ہے اس کے ارد گرد اتنی سخت سیکورٹی ہے کہ وہاں محاورتاً نہیں حقیقتاً پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اس کے ارد گرد لیزر ٹیکنالوجی مدد سے ایک دائرہ بنایا ہوا ہے۔ جس کا تعلق الارم سسٹم سے ہے۔ گویا جو بھی اس دائرے کے اندر آئے گا، نہ نظر آنے والی شعاعوں سے ٹکرائے گا اور خفیہ الارم بج اٹھیں گے۔ اب اتنے بڑے فوجی سیکٹر میں گھوڑے گدھے بیچ کر تو کوئی نہیں سوتا کہ کسی کو علم بھی ہو اور ایک دو نہیں اکٹھے چار افراد اندر داخل ہوں اور آرام سے سترہ افراد کو داروغۂ جہنم کا راستہ دکھا دیں ، بیس سے زیادہ افراد کو زخمی کر دیں اور کسی کو علم نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس سے پہلے باہر کی طرف اے کلاس خاردار تاریں لگائی گئی ہیں اور اتنی گھنی ہیں کہ آسانی سے پانچ دس منٹ میں ان کو نہیں کاٹا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے جب اس طرح کی تاریں لگائی جاتی ہیں تو ان میں کرنٹ بھی چھوڑا جاتا ہے۔ ان میں بھی باقاعدہ الارم سسٹم لگا ہوتا ہے۔ جو اس سے ٹکرائے گا، یا کاٹنے کی کوشش کرے گا کہیں نہ کہیں تو الارم بجے گا۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ نہ تو لیزر ٹیکنالوجی سے الارم بجا، نہ ہی خاردار تاروں کی وجہ سے کوئی الارم بجا۔ اچنبھے کی بات ہے۔
مودی صاحب کا موڈ ہو اخراب ، تو انھوں نے کچھ نیا کرنے کا سوچا۔ لیکن کوٹلہ چانکیہ کے چیلے کب نیا کر پاتے ہیں۔ وہی اپنے بندے تیار کروائے، انہیں یہ سبق سکھایا کہ بس تھوڑا سا ہلہ گلہ کرنا ہے اور وہاں سے بھاگ آنا ہے۔ اب وہ کب جانتے تھے کہ ان چیلوں کے ہاتھوں میں کھیل کر زندگی کی بازی ہی ہار جانی ہے۔ یہ تو کنفرم ہے کہ وہ مرنے والے چار افراد مسلمان تھے۔ کیونکہ ہندوئوں کو کبھی اس طرح کے معاملات میں آگے نہیں لایا جاتا ۔ بلکہ کشمیر میں جو ایک دو نام نہاد آزادی کی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں انہی کو آگے لایا جاتا ہے۔ یہ وہی تنظیمیں ہیں جن کی وجہ سے اکثر مجاہدین کی مخبری ہو جاتی ہے اور وہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں۔تو ہندوستان کے ہندوئوں کا منصوبہ ہمیشہ ہی ایک جیسا ہوتا ہے۔ جیسے پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کے وقت ہوا تھا۔
جب ہندوستان والوں نے ان کی حملہ کرتی تصویریں امریکہ کے ساتھ شیئر کی تھیں تو ان کے ساتھ ایک بندہ پہچانا گیا تھاجو کہ ان کی بدنام زمانہ ایجنسی را کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔جو مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوں کو منصوبہ سکھا رہا تھا کہ پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کرنے سے کشمیر کی آزادی کی جنگ میں اور تیزی آئے گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب حملہ آور مارے گئے تھے تو اس وقت اس ڈی ڈی کی لاش کیوں موجود نہیں تھی؟ اب بھی صورت حال ایسی ہی ہے۔ ابھی تک کسی بھی مقام پر ان چار مرنے والے افراد کی لاشوں کو ظاہر نہیں کیا گیا (اگر کیا گیا ہے تو معذرت کہ ابھی مجھ تک معلومات نہیں پہنچیں)۔ آخر کیا وجہ ہے؟ نہ ان کے بارے میں کوئی تفصیل بتائی جارہی ہے نہ ہی ان کی تصاویر شیئر کی جارہی ہیں۔ لیکن وہی ڈھاک کے تین پات کی طرح وہی ازل کا راگ الاپا جا رہا ہے کہ حملہ آورپاکستان سے آئے تھے۔ ان کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تھا۔ اورہمیشہ کی طرح یہ اعلان حملہ ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کے میڈیا پر شروع ہو گیا تھا۔
India
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم کمزوری کیوں دکھاتے ہیں؟ مسلمان قوم کو اللہ پاک نے ہر دم تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اپنے گھوڑے اور تلواریں ہر دم تازہ دم اور تیار۔ کہ اعلان ہوا نہیں اور تلواریں میان سے باہر آئیںنہیں۔لیکن ہم ان کے الزامات کو خاموشی سے سن رہے ہوتے ہیں۔ کوئی جواب نہیں دیتے۔ اور اگر جواب دیتے بھی ہیں تو گھنٹوں گزرنے کے بعد۔ جس طرح ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا، لیکن الزامات کے تیر وں کی برسات ایک دم سے کر دیتے ہیں اسی طرح ہمارا میڈیا بھی اگر چاہے تو بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی وقت میں اہم پروگرام شروع کرکے ان کے الزامات کو دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوا میں اڑا سکتا ہے۔ آخر کیوں؟ ہم کیوں خاموش رہتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بکا ہوا ہے۔ یا پھر اس کے مالکان بکے ہوئے ہیں؟ کچھ تو ہے ، دال میں کچھ ہی کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ افسوس صد افسوس، اللہ پاک سے ڈرنے کی بجائے امریکہ اور اس کے پٹھوئوں سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ان کی اوپر کی آمدنی نہ بند کر دیں۔
اب ہمارے پرائم منسٹر صاحب امریکہ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ۔ یہاں سے تہیا کرکے گئے تھے کہ انڈیا کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ پوری دنیا کے سامنے کشمیر کا مسلہ رکھیں گے۔ اور انھوں نے عمدہ طریقے سے اپنا مدعا بیان کیا۔ سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ کشمیر کا مسلہ حل کرایا جائے۔ کیا ساری دنیا کو نہیں علم کہ کیا ہو رہا ہے؟ وہاں بجائے مسلہ سامنے رکھنے کے سیدھی طرح ببانگ دہل کہتے کہ وہ یہاں مسلہ کشمیر حل کرانے آئے ہیں۔ آج ساری دنیا اکٹھی ہے۔ آج ہی یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ کشمیر کو انڈیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کب آزاد کرے گا؟ انڈیا پر دبائو ڈلوایا جائے۔ ساری دنیا کی اقوام اکٹھی ہوں گی جن کی اکثیریت ظلم و ستم سے گزر کر آئی ہے۔ انہیں آزادی کے مفہوم کا علم ہے۔ اسلیے اکثریت پاکستان کا ساتھ دے گی۔ بے شک روس اور امریکہ ویٹو ضرور کریں گے کیونکہ امریکہ تو وہ منحوس ملک ہے جو عالمی یوم امن پر بھی دنیا میں امن نہیں دیکھنا چاہتا کہ اس طرح اس کی دکان بند ہوتی ہے۔ دو ملکوں کو لڑا کر دونوں کو اپنا اسلحہ بیچتا ہے۔ بے شک ویٹو ہو، لیکن جب دنیا کے نوے فیصد ممالک اکٹھے ہو جائیں تو وہ روس اور امریکہ پر بھی دبائو ڈال سکتے ہیں کہ اڑسٹھ سالہ اس پرانے مسلے کو فوراً حل کیا جائے۔
Nawaz Sharif Speech
پاکستان کے اندر کچھ نام نہاد ہندوستان کے چمچے منہ پھاڑ کر کہتے پھر رہے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ تم اپنے دماغ سے سوچ رہے ہو یا تمھارے پیچھے بھی انڈیا کا ہی دماغ کام کر رہا ہے۔ وہ جو کچھ دنیا کو بتانا چاہتا ہے تم وہی کچھ کہہ رہے ہو۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان صرف اخلاقی اور سیاسی مدد کر رہا ہے۔ بے شک کشمیر نے ان شاء اللہ پاکستان کا ہی حصہ بننا ہے۔ لیکن پھر بھی کشمیر کے جنگی معاملات میں ہر گز مداخلت نہیں کر رہا۔ تم چاہتے ہو کہ کشمیر کا مسلہ امن سے ، بات چیت سے حل ہو۔ تم بتائو کہ اگر امن سے ، بات چیت سے حل ہوناہوتا تو ١٩٩٠ تک جو پاک بھارت مذاکرات کشمیر کے مسلہ پر ہوتے رہے، اس کا کوئی حل کیوں نہیں نکلا۔جب یاسر عرفات نے اسلحہ چھوڑ کر فلسطین کے حل کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کیا لیکن آج تک فلسطین کا مسلہ حل نہ ہوا۔ کیوں؟ دنیا کیوں اس کشمیر کے مسلہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ اور جب کشمیر کے غیور عوام نے دیکھا کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکل رہا ہے تو انہیں انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑیں۔ انہیں اسلحہ اٹھانا پڑا۔ بھارتی فوجیوں کا اسلحہ ہی چھین کر ان ہی کے خلاف استعمال کیا۔ تب سے آج چھبیس سال ہو گئے ہیں ہزاروں کشمیری شہید کر دیے گئے ، اور ہو رہے ہیں۔ پچھتر دنوں سے کرفیو نافذ ہے، امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور تم لوگ کہتے ہو کہ بات چیت سے حل نکالیں۔ ارے بد بختو، جب بھارت خود نہیں چاہتا کہ گفت و شنید سے یہ حل نکلے تو تم تیسری جگہ کیوں اپنی ٹانگ اڑاتے ہو۔ ان شاء اللہ کشمیر نے توآزاد ہونا ہے، لیکن اس وقت تمھارا کیا ہو گا، جب ان کو علم ہو گا کہ یہ رہے دانشوران جو کشمیر کا یہ حل اس وقت چاہتے تھے جب بھارت خود اپنے آپ کو چکی میں پسوا رہا تھا۔
ہندوستان والو سن لو، تم لاکھ اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر جمع کر لو۔ تم اپنے اوپر جنگی جنون طاری کر لو۔ تم اس پاکستان کو للکار رہے ہو جس کے باسی آج بھی اسی نبی صلی اللہ علیہ کے امتی ہیں جنھوں نے اپنے ٣١٣ جانثاران کے ساتھ اپنے سے تین گنا زیادہ طاقتور فوج کو شکست دی تھی۔ جب کہ ان کے پاس اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہ پاکستانی قوم حضرت خالد بن ولید کے سپاہی ہیں، حضرت عبیدہ بن الجراح کے سپاہی ہیں۔ طارق بن زیاد، موسٰی بن نصیر، محمد بن قاسم کے پیروکار ہیں۔ ان سے پنگا مت لینا۔ آج کے پاکستان کے پاس اللہ کے حکم کے مطابق سب کچھ تیار ہے۔ اللہ کا نام بھی دلوں میں ہے اور اسلحہ بھی۔ جو اللہ کا نام لے کر ایک بار اٹھ گئے تو پھر غزوئہ ہند کو ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ اور حدیث کے مفہوم کے مطابق بھارت کو فتح کر کے ہی دم لیا جائے گا۔ اب بھی وقت ہے واپس اپنی بیرکوں میں لوٹ جائو ، تمھارے بزدل سپہ سالار تمھیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ جو کہ ہم پر حرام ہے۔ اور حرام چیزوں کو توہم ویسے بھی بہت شوقین ہیں، اورجب وہ دشمن ہوں تو پھر تو۔۔