بھارت کی حکومت اور اہل عقل و دانش کو اتوار اور پیر کے روز میرٹھ کی سوامی وویک آنند سبھرتی یونیورسٹی (SVSU) میں رونما ہونے والے واقعات، یونیورسٹی انتظامیہ کے طرز عمل اور پھر اترپردیش حکومت کے انتہا پسندانہ رویہ پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک ملک کے لوگ ، انتظامیہ اور استاد اختلاف رائے کا احترام کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور اس کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو یہ ملک کیوں کر خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہورییت کہنے کا حق حاصل کر سکتا ہے۔ جمہوریت محض دعوے کرنے یا اعلان کرنے سے نافذ نہیں ہوتی۔ اس کے لئے معاشرے کے نظام اور وہاں بسنے والے افراد کے مزاج میں مؤثر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت میں رونما ہونے والے واقعات گاہے بگاہے اس بات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں کہ بھارتی جمہوری نظام ناقص اور غلطیوں سے بھرا ہؤا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کی حکومت کی طرف سے 67 کشمیری طالب علموں کے خلاف غداری اور بغاوت کے الزامات اگرچہ واپس لے لئے گئے ہیں لیکن اس اقدام نے بھارتی جمہوریت اور مزاج پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے۔ اس سانحہ سے یہ بھی واضح ہؤا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے باشندے دل سے بھارتی تسلط کے خلاف ہیں۔اس کے باوجود بھارتی حکومت کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر برصغیر کو مستقل جنگ کے دہانے پر پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ جمہوریت کا پہلا اور بنیادی اصول قوت برداشت اور مخالفانہ رائے کا احترام ہے۔ بجا طور پر کسی بھی جمہوری معاشرے میں صرف اکثریت حاصل کرنے والے سیاسی نمائندوں کو ہی حکومت سازی اور حکمرانی کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن اس نظام میں اقلیت کو بھی اپنی رائے رکھنے اور اپنی مرضی کی پالیسیوں کی کوششیں کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جو بھی جمہوریت اس اصول سے روگردانی کا سبب بنتی ہے اس کو مزاج اور نظام کی تبدیلی کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔اس نقطہ نظر کی سب سے بڑی دلیل مقبوضہ کشمیر پر بزور شمشیر تسلط ہے۔ 7 لاکھ بھارتی فوج اس وقت کشمیر پر قابض ہے اور وہاں رہنے اور بسنے والوں کی نقل و حرکت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ بھارت نے نہ صرف کشمیر پر فوجی قوت کی بنا پر قبضہ کیا ہؤا ہے اور وہ وہاں آباد لوگوں کو حق خود اختیاری دینے سے منکر ہے بلکہ اس تسلط کو قائم رکھنے اور مستحکم کرنے کے لئے بھارتی فوج نے ظلم و ستم اور دہشت گردی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر دنیا کی جدید تاریخ میں ملنا ممکن نہیں ہے۔اتوار کو بنگلہ دیش کے ایک اسٹیڈیم میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔ یہ میچ کوئی بھی ٹیم جیت سکتی تھی۔
تاہم پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر بھارت کے طول و عرض میں جس شرمناک قوم پرستی کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ کھیل کی روح کے خلاف ہونے کے علاوہ بھارت کے جمہوری مستقبل کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے پاکستانی ٹیم کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے والے ایک نوجوان کشمیری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں چھریوں کے وار کر کے اس کو ہلاک کر دیا۔ اب یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تین بھارتی فوجیوں کے خلاف اس قتل کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
ماضی میں البتہ اس قسم کے واقعات میں کسی بھارتی فوجی کو سزا نہیں دی گئی۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں سے طرف سے اجتماعی قبروں سے لیکر ٹارگٹ کلنگ تک کے واقعات کا انکشاف کیا گیا ہے۔ لیکن بھارتی نظام عدل میں اس قسم کے گھناونے جرائم میں ملوث لوگ صاف چھوٹ جاتے ہیں۔
Indian Parliament
بھارتی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں جرائم میں ملوث فوجیوں کے تحفظ کے لئے خصوصی قوانین بنائے ہیں۔ یہ قوانین انسانیت اور جمہوریت کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہیں لیکن اس کے باوجود بھارتی حکومت انہیں تبدیل کرنے اور اپنی فوج کی سرزنش کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ بھارتی حکومت کا یہ رویہ اہل کشمیر میں نفرت اور بھارت دشمنی کو ہی ہوا دے رہا ہے لیکن بھارت کے سیاست دان اپنے انسانیت سوز رویوں سے باز آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اتوار کو ہی پاک بھارت کرکٹ میچ کے بعد میرٹھ کی SVSU یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعات سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی فوج اور سیاستدانوں کی طرح بھارت کے تعلیمی ادارے بھی جمہوریت کی روح کے مطابق روایت قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے طالب علموں نے یہ میچ یونیورسٹی کے کامن روم میں دیکھا۔ ان میں مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے درجنوں طالب علم بھی شامل تھے۔ شاہد آفریدی کے شاندار چھکوں نے آخری اوور میں میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس پر کرکٹ کے دیگر شائقین کی طرح بعض کشمیری طالب علموں نے بھی پاکستانی ٹیم کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس پر بعض دیگر طالب علموں نے مشتعل ہو کر توڑ پھوڑ شروع کر دی اور کشمیری طالب علموں پر حملہ آور ہوئے۔ اس گرما گرمی میں کشمیری طالب علموں نے پاکستانی ٹیم کے حق میں نعرے لگائے۔ خبروں کے مطابق یونیورسٹی کی سکیورٹی نے ایک گھنٹہ تک اس افسوسناک صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بعد میں یونیورسٹی انتظامیہ نے فوری طور پر 67 طالب علموں کو یونیورسٹی سے معطل کرتے ہوئے ہوسٹلوں میں کمرے خالی کرنے کا حکم دیا۔ وائس چانسلر منظور احمد کے حکم پر تین بسوں کا انتظام کیا گیا اور طالب علموں کو زبردستی دہلی کی طرف روانہ کر دیا گیا تا کہ وہاں سے وہ کشمیر میں اپنے گھروں کو روانہ ہوں۔ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں صورتحال کشیدہ تھی۔ اس لئے نقص امن کے خطرہ کے پیش نظر ان کشمیری طالب علموں کو نکالا گیا تھا۔ تاہم ان طالب علموں پر حملہ کرنے والے دوسرے طالب علموں کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔
وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے دیگر عہدیداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان طالب علموں نے بھارتی ٹیم کے خلاف اور پاکستان کی حمایت میں نعرے لگائے۔ منظور احمد کے بقول یونیورسٹی میں قوم دشمنی پر مبنی نعرے برداشت نہیں کئے جا سکتے۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ شاید ایک آدھ طالب علم نے ہی لگایا تھا لیکن چونکہ دوسرے طالب علموں نے ان چند ساتھیوں کا نام بتانے سے انکار کیا تھا اس لئے ان سب کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔بعد میں یونیورسٹی حکام کی شکایت پر اتر پردیش حکومت نے ان 67 طالب علموں کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا۔ یہ دفعات غداری ، بغاوت اور توڑ پھوڑ سے متعلق ہیں۔ ایک کھیل کے دوران نعرے لگانے کی پاداش میں یونیورسٹی سے معطل کرنا ہی ایک انتہائی اقدام ہے لیکن معصوم طالب علموں کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ قائم کرنا ہر قسم کی انسانی اور جمہوری روایت کا مذاق اڑانا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس فیصلہ کو ناجائز اور غیر ضروری قرار دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور طالب علموں نے بھی یونیورسٹی اور اتر پردیش حکومت کے طرز عمل کو نازیبا کہتے ہوئے یہ الزام واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اتر پردیش کی حکومت نے آخری اطلاعات کے مطابق بغاوت کا الزام واپس لے لیا ہے۔ تاہم نہ تو ان طالب علموں کے خلاف مقدمات واپس لئے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں یونیورسٹی میں بحال کیا گیا ہے۔ متاثر ہونے والے طالب علموں نے یونیورسٹی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اس ایک واقعہ نے ان افسوسناک حالات کو بھی واضح کیا ہے جو اس وقت کشمیر میں موجود ہیں۔ بھارتی حکومت کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ طاقت کے زور پر کس طرح لوگوں کے دلوں سے اپنی آزادی کی خواہش کو نکال سکتی ہے۔ یہ صورتحال انسانی اقدار کے علاوہ بھارتی جمہوریت کے لئے بھی خطرہ ہے۔ میرٹھ کے واقعات اسی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں۔