دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا نام ’انڈیا‘ کی جگہ ’بھارت‘ کرنے کے لیے دائر کی گئی عرضی بدھ 3 جون کو خارج کر دی۔
عدالت عظمی نے یہ دلیل بھی مسترد کردی کہ لفظ ’انڈیا‘ میں غلامی کی جھلک ملتی ہے جب کہ ’بھارت‘ کے شبد سے قوم پرستی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
دہلی کے ایک رہائشی نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں گذارش کی تھی کہ بھارتی آئین کی دفعہ 1میں ترمیم کے لیے مناسب قدم اٹھاتے ہوئے لفظ’انڈیا‘ کو ہٹاکر ملک کو ’بھارت‘ یا ’ہندوستان‘ کہنے کی وفاقی حکومت کو ہدایت دی جائے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا”ہم ایسا نہیں کرسکے۔ آئین میں تو انڈیا پہلے سے ہی بھارت ہے۔“
خیال رہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 1 ملک کا نام اور علاقہ سے متعلق ہے اور اس کی ابتدا اس جملے سے ہوتی ہے، ”انڈیا– یعنی بھارت، ریاستوں کی ایک یونین ہوگا۔“
عرضی گذار نے کہا تھا کہ لفظ انڈیا غلامی کی نشانی ہے اور اس لیے اس کی جگہ بھارت یا ہندوستان کا استعمال ہونا چاہیے۔ انگریزی نام کو ہٹایا جانا بھلے ہی علامتی ہوگا لیکن ا س سے ہماری قوم پرستی میں اضافہ اور بالخصوص آنے والی نسلوں میں فخر کا احساس پیدا ہوگا۔
عرضی گذار نے مزید کہا تھا کہ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک ایک ہے تو اس کے ایک سے زائد نام کیوں ہیں؟ ایک ہی نام کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ انہوں نے اس بات پر خاص طور پر زور دیا تھا کہ لفظ ’انڈیا‘ سے غلامی جھلکتی ہے۔ یہ بھارت کی غلامی کی نشانی ہے اس لیے اس لفظ کی جگہ بھارت کا استعمال ہونا چاہیے۔ عرضی گزار کا کہنا تھا کہ لفظ’بھارت‘ ملک کی جد وجہد آزادی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ برطانیہ کے خلاف جدوجہد آزادی کے دوران مجاہدین آزادی’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔
سپریم کورٹ نے گوکہ عرضی مسترد کردی تاہم عرضی گذار کو حکومت کی متعلقہ وزارتوں اور بالخصوص وزارت داخلہ، جو ناموں کو تبدیلی کرنے کی مجاز ہے، سے رابطہ کرنے کی اجازت دے دی۔
2016 میں بھی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہر بھارتی شہری کو حق ہے خواہ وہ ’انڈیا‘ کہے یا ’بھارت‘ کہے۔
انڈیا کو بھارت کرنے کی یہ عرضی ملک میں غیر ہندو ناموں کو تبدیل کرنے کی مسلسل کوشش کا ہی ایک حصہ ہے۔ ماضی میں وفاقی اور ریاستی حکومتیں متعدد تاریخی ناموں کو تبدیل کرچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ملک کا نام انڈیا سے بھارت کرنے کی یہ کوشش بھی کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے قبل سال 2016 میں بھی سپریم کورٹ نے اسی طرح کی ایک عرضی خارج کردی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہا تھا کہ ہر بھارتی شہری کو ملک کا نام اپنے مطابق لینے کا حق ہے خواہ وہ اسے ’انڈیا‘ کہے یا ’بھارت‘ کہے۔ اس کے لیے فیصلہ کرنے کا سپریم کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جسٹس ٹھاکر نے کہا تھا ”اگر کوئی بھارت کہنا چاہے تو بھارت کہے اور اگر انڈیا کہنا چاہے تو ملک کا نام انڈیا کہے۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔“
خیال رہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کے نام کے حوالے سے کافی بحث و مباحثے کے بعد آئین میں دو نام اختیار کیے گئے۔ برطانوی ہندوستان میں انڈیا کو ہندوستان کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن آئین ساز اسمبلی کے بعض اراکین نے اس نام کی بوجوہ شدید مخالفت کی۔ آئینی مباحثوں کے دوران بھارتی آئین مرتب کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کی دلیل تھی کہ چونکہ ملک کو دنیا بھر میں انڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے اس لیے اس نام کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔ لیکن کچھ اراکین اس کی جگہ بھارت کا نام رکھنا چاہتے تھے۔ بالآخر درمیانی راستہ اپنا یا گیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 1 کا پہلا جملہ اس طرح لکھا گیا”انڈیا– یعنی بھارت، ریاستوں کی ایک یونین ہوگا۔“
بھارتی صحافی اور سابق رکن پارلیما ن پریتیش نندی کا اس پوری بحث کے حوالے سے کہنا تھا”یہ سوال ہی احمقانہ ہے۔ آپ اسے میلوہا یا آریہ ورت کیو ں نہیں کہتے؟ (جو اس کے قدیم نام بتائے جاتے ہیں)۔ لیکن اگر حقیقت کی بات کی جائے تو یہ کہ انڈیا نام برطانیہ نے نہیں دیا تھا۔ یہ دریائے سندھ سے ماخوذ ہے اوراس کا استعمال فارسی اور یونانی تاریخ میں ہیروڈوٹس کے زمانے سے ہی ہوتا رہا ہے جس کا دور پانچویں صد ی قبل مسیح کا ہے۔ آزادی انڈیا نے حاصل کی تھی نہ کہ بھارت نے۔“