کشمیر (جیوڈیسک) بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان سے قبل کشمیر میں مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا، جو چوبیس گھنٹے بعد بھی معطل ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کی جانب سے اس بھارتی اقدام پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ خدشات ظاہر کیے جا سکتے ہیں کہ اس بھارتی اقدام کے بعد کشمیر کے خطے میں نئے مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں اور تشدد کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔
حکومتی بیان کے مطابق اتوار سے کشمیر میں ٹیلی کمیونیکشن اور میڈیا کی بندش کی وجہ وہاں تشدد کے ممکنہ واقعات کی روک تھام ہے۔
دوسری جانب کشمیریوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے ٹیلی کمیونیکشن نظام کی بندش سے وہ ریاست میں ہونے والے امور سے مکمل طور پر بے خبر ہیں، جب کہ ان کا موقف سرے سے غائب ہے۔
پیر کے روز بھارت کی جانب سے دستور میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کشمیر کو دستوری طور پر دستیاب خصوصی حیثیت ختم کی جا رہی ہے، جس میں اس شق کا خاتمہ بھی شامل ہے کہ کوئی بھارت کے کسی بھی دوسرے حصے کا باسی کشمیر میں نہ تو مستقل سکونت اختیار کرنے کا مجاز ہے اور نہ ہی اسے وہاں جائیداد یا املاک خریدنے کا اختیار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کشمیر میں کالجوں میں داخلوں اور سرکاری نوکریوں تک بھی اب مقامی رہائشیوں کے علاوہ دیگر بھارتی شہریوں کی رسائی ہو جائے گی۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
کشمیر میں اس سے قبل بھی موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی ہوتی رہے ہیں، تاہم اس بار وہاں لینڈ لائن اور کیبل ٹی وی نیٹ ورک تک بند کر دیے گئے ہیں۔
ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ نئی دہلی حکومت کی جانب سے یہ اقدام ‘احتیاطی‘ طور پر کیا گیا ہے اور جوں ہی زندگی معمول کی جانب لوٹے گی، ان پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہری آزادی پر اس انداز کا حملہ کشمیری باشندوں کو بھارت کے مرکزی دھارے سے مزید دور کر دے گا اور اس سے وہاں انسانی حقوق کی مزید پامالیوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔