موجودہ پاکستان بھارت کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہ پاکستان دشمن ممالک کی بھارت کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں کے گٹھ جوڑ اور سازش کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ ان ممالک میں اسرائیل امریکہ افغانستان اور پڑوسی ملک ایران شامل ہیں۔ اور ان ممالک کے گھناونے مقاصد اب کھل کر سامنے آئے ہیں۔قریب واقعہ امریکی اور افغان فورسز کی مشترکہ ملٹری بیس پرطالبان کا تابڑ توڑ حملہ کیا گیا۔افغان طالبان کے اس فضائی حملے میں صرف 11 حملہ آورشریک تھے۔ اس حملے میں تقریباً 137 امریکی میرینز،پچاس سے ستر کے قریب بھارتی راکے اعلیٰ افسران، این ڈی ایس کے اہم افسران ہلاک ہوگئے۔ذرائع کے مطابق تین ہفتوں کے اندرطالبان کے حملوں میں 5سو سے زائد امریکی میرینز کی لاشیں کابل سے اُٹھ چکی ہیں۔ اب امریکی جنرل پریشان ہے کہ وہ ان لاشوں کو امریکہ میں کس طرح لے کرجائے۔امریکہ میں عوام پہلے سے ہی امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہے مزید لاشیں اُٹھنے کے بعد امریکہ میں قیامت کا منظر سامنے آنے کے خدشے کے پیش نظر امریکیوں کو افغانستان میں ہی دفن کرنے کا پلان مرتب کرلیا گیا ہے۔طالبان نے یہ دعوی کیا ہے کہ ہم نے افغانستان میں جو حملہ کیا اس میں را کا ہیڈ کوارٹر بھی شامل ہے۔ تو گویا اللہ تعالی نے پاکستان کو چاروں طرف سے سرخرو کیا ہے۔ تو اتنے ممالک کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ بالآخر ناکام ہو گیا۔ اس سلسلے میں CIA, RAW, NDS اور موساد کا پاکستان خلاف گٹھ جوڑ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔اتنے وسیع پیمانے پر پاکستان کی مخالفت سے ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان دنیا میں وہ واحدملک ہے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے۔لیکن مملکت پاکستان پر خدا کی خاص مہربانی ہوئی کہ نہ صرف دشمن کو منہ کی کھانی پڑی بلکہ ناقابل فراموش شکست سے دوچار ہونا پڑا۔یہ سازش کافی عرصہ سے خفیہ تھی اور اس سازش کی پہلی کڑی چاہ بہار بندرگاہ تھی۔
چاہ بہار بندرگاہ انڈیا، ایران اور افغانستان کی ایک بین الاقوامی راہداری ہے جس کے ظاہری مقاصد میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کاتوڑ ہے۔جس کے تعمیر ہونے پر خطے کی ساری سمندری تجارت چاہ بہار منتقل ہو جائے گی۔ وسط ایشیائی ریاستیں اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔بھارت کو افغانستان تک تجارت کے لئے رسائی ممکن ہوگی۔روس اس سے استفادہ کرے گااور چین کے لئے ایک پرکشش متبادل روٹ موجود ہوگا۔لیکن اس منصوبے پر پاکستان کو شروع سے ہی تشویش تھی۔ جس کا الزام یہ تھا کہ انڈیا افغانستان کے امور میں مداخلت کر رہا ہے اور اس کی کوشش پاکستان کو دو سرحدوں پر گھیرنے کی تھی بحیرہ عرب کے راستے بائی پاس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انڈیا کے لیے یہ وسطی ایشیا، روس اور یہاں تک کہ یورپ تک رسائی حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ایک طرف تو ا مریکہ نے ایران کو پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ مگر دوسری طرف وہ ایران کی پاکستان مخالف معاملات میں مدد کر رہا ہے تاکہ ایرانی سرحدوں کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے کیااستعمال کر سکے ۔بھارت پر بھی امریکہ ہر طرح سے مہربان ہے۔افغانستان کے اندر بھارت کو پہلے ہی بے پناہ اثر و رسوخ حاصل ہے اور اس کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے ہیں جن کی سیکورٹی کے بہانے وہ اپنی دہشت گرد تنظم را کے ایجنٹوں کا جال افغانستان میں پھیلا رہا ہے۔ را کے دہشت گردوں کا ایک نیٹ ورک چاہ بہار سے بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ایجنٹ کلبھوشن یادیو بلوچستان میں داخلے کے وقت پکڑا گیا۔وہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا عہدہ بری فوج کے کرنل کے برابر ہے۔ کل بھوشن نے تسلیم کیا ہے کہ وہ چاہ بہار میں دہشت گردوں کو تربیت دیتا ہے اور انہیں تخریب کاری کے لئے بلوچستان میں داخل کرتا ہے۔ یہ ٹریننگ ویسی ہی ہے جیسے ستر اکہتر میں بھارت نے مکتی باہنی کو دی تھی اورا سے پاکستانی فوج سے ٹکرا دیا تھا۔ اور پھر موقع ملنے پر خود بھارتی فوج نے جارحیت کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا تھا،۔
موجودہ بھارتی سازش یہ ہے کہ جس طرح 1971 میں ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیش بنے اور پاکستان کے دو ٹکڑے ہوں۔ اسی طرح بھارت کی کوشش ہے کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل حصہ پاکستان سے الگ کر دیا جائے ا س کے لئے اس نے افغان سر زمین کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے ایران کی سرزمین بھی میسر�آ گئی ہے اور وہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو توسیع دینے کے منصوبے کی آڑ میں دہشت گردی ا ور تخریب کاری کا نیٹ ورک منظم کر رہا ہے۔ اس مذموم منصوبے میں اسے امریکہ کی اشیرباد بھی پوری طرح حاصل ہے جس نے ویسے تو ایران کو اقتصادی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے مگر چاہ بہار کی بندرگاہ اور اسے افغانستان سے ریلوے کے ذریعے مربوط کرنے کے لئے اپنی پابندیوں کو نرم کر دیا ہے۔
آخر میں میں یہ کہوں گی کہ اللہ تعالی نے دشمن کی سازش کو نہ صرف بے نقاب کیا ہے بلکہ پاکستان آرمی نے دشمن کو ایسا سبق دیا ہے کہ آئندہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا۔ امریکہ پاکستان کے طالبان کے سلسلے میں مذاکرات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خلیل زاد کا دورہ اسلام آباد حالیہ چند ماہ میں اس خطے کے متعدد دوروں کا تسلسل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ تمام تندہی سے حل نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب بھی امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کا پرامن حل ممکن نہیں جو کہ پاکستان کے لیے اچھی بات ہے۔
Imran Khan
اسے عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ٹوئٹر پر حالیہ بیانات کی جنگ کے بعد ایک صحت مند پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ مصلحت آمیز مکالمے ’ڈو مور‘ ہی ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان کی مدد ناگزیر سمجھتا ہے وزیر اعظم عمران خان کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد مانگی ہے۔ایک ایسے وقت جب امریکہ خود طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے اسے پاکستان کی شدید ضرورت ہے وزیر اعظم نے اس کا احاطہ اچھے طریقے سے کیا ہے اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات جاری ہیں۔جس کی وجہ سے امریکہ پاکستان پر بہت خوش ہے۔تو اس سے مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ امریکہ افغان طالبان پر پاکستانی اثر و رسوخ کو دل سے سراہتا ہے اور پاکستان کی مدد کے بغیر خطے میں امن و امان کی کامیابی کو ناگزیر سمجھتا ہے۔جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔