بھارت کے صدرنے قوم کے مفادمیں عدالتی فیصلوں کو قومی اور علاقائی زبانوں میں تحریر کرنے کے احکامات جاری کر کے، یہ ثابت کر دیا کہ قانون انگریزوں کی میراث ہے نہ ھندوستانی قوم انگریزوں کی غلام ہے۔اسی طرح کا ایک حکم مملکت خداداد کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلیٰ جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی صادر کیا تھا، جس کے مطابق پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان اردو ہو گی۔سرکاری زبان اردوہونے کا مطلب یہ ہے کہ قومی مفادمیں تمام دفتری امور قومی زبان میں سرانجام دئے جائے۔دفاترمیں خط کتابت اردومیں ہو اور سب سے بڑھ کر عدالتوں کی جملہ کارروائی اردوزبان میں کی جائے۔بانی پاکستان قائداعظم کافرمان کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اورصرف اردو ہو گی۔ آئین پاکستا ن میں صاف صاف لکھاہے کہ اردوہی کو پاکستان کی دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر عدالت عظمیٰ کاوہ حکم ہے،جس نے اردوکو سرکاری زبان کی حیثیت دلانے کے لئے اپناتاریخ سازفیصلہ اردوزبان میں تحریرکرکے، یہ ثابت کردیاکہ اردوزبان میں جملہ عدالتی امورنمٹانے کی صلاحیت موجود ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پہلے شریعہ ریگولیشن 2009 کے مطابق ملاکنڈڈویژن میں عدالتوں میں انگریزی کے ساتھ ساتھ قومی اورعلاقائی زبانوں میں فیصلے تحریرکرناکااختیاردیاگیاتھا، جس کی برکت سے اس خطے کی عدالتوں میں تقریباً تمام کارروائی اردوزبان میں ہوتی ہے۔ اردوزبان میں عدالتی کارروائی کاسب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔ انگریزی ہم پاکستانی قوم کے لئے وقت لیوازبان ہے، خاص طورپر کوئی دستاویزلکھنے کے لئے اگرہم انگریزی زبان کاسہارالے، تواسکے لئے ہمیں کن مراحل سے گزرناپڑتاہے، یہ وہی لوگ جانتے ہیں، جو دونوں زبانوں میں خط کتابت اوردیگرتحریری تجربات سے گزرے ہوں۔عدالت عظمیٰ کے معززمنصف اعلیٰ جناب جسٹس جوادایس خواجہ نے اردوزبان کے نفاذکاحکم جاری کرکے، پوری ملک کے دفاتربشمول عدالتوں تک اردوزبان میں خط کتاب اوردیگرکارروائی کادائرہ بڑھایااوریہ اختیارنہیں دیاکہ چاہے انگریزی میں کرے یااردومیں بلکہ یالازمی قراردیا کہ پاکستان کی سرکاری اوردفتری زبان اردوہوگی اورجملہ دفتری اورعدالتی امورانگریزی کی بجائے اردوزبان میں سرانجام دئے جائیں گے۔
میرااپناتجربہ رہاہے کہ جب بھی میں نے قومی زبان میں کوئی تحریرلکھی ہے ، وہ عام فہم، مفصل، فصیح اوربلیغ رہی ہے جبکہ اسکے مقابلے میں انگریزی زبان میں جوتحریرلکھی جاتی ہے ،وہ عام فہم نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی لکھنے والااسکامطلب سمجھتاہے لیکن قاری اس کامطلب سمجھنے سے قاصرہوتاہے۔کبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ خودلکھنے والااپنی تحریرکوسمجھنے کاقابل نہیں ہوتا۔ انگریزی زبان میں تحریرکرتے وقت ، ایک ایک لفظ اورفقرے کے لئے لغات اورانٹرنیٹ تلاش کرتے ہیں ،جس سے معمولی سی تحریرپر کافی وقت خرچ ہوتاہے۔
پھر وہ تحریرعام پاکستانی قاری کی سمجھ سے باہرہوتی ہے۔انہیں مشکلات اورمصائب سے چھٹکاراپانے کے لئے بھارتی صدر نے یہ حکم جاری کردیاہے کہ عدالتی فیصلے قومی اورعلاقائی زبان میں تحریرکئے جائے تاکہ ایک عام شہری قانون سے واقفیت حاصل کرلے اوراسے عدالتی کارروائی کاعلم ہوسکے ۔ ایک عام پڑھالکھاشخص اپنافیصلہ پڑھوانے کے لئے کسی بڑے وکیل یاانگریزی سمجھنے والے کااحسان نہ اٹھائے اوراسے فیصلہ سمجھنے کے لئے اضافی فیس نہ دیناپڑے۔میرے تجربے کے مطابق کسی بھی مقدمے کاآغازوکیل کے دفترسے ہوتاہے، جہاں عام طورپر وہ دعویٰ یادرخواست اردو میں تحریرکرتے ہیں۔اس دعویٰ یادرخواست کو جب عدالت میں داخل کردیاجاتاہے تواسکے لئے جج کے سامنے بحث بھی اردوزبان میں کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں روانی سے انگریزی بولنے والے آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہیں۔
اسکے بعد وکیلوں کے کلرک اورعدالتی عملہ تمام کارروائی اردوزبان ہی میں کرتے ہیں۔یہاں تک کہ مقدمات کی سماعت کے دوران گواہان کے بیانات بھی اردوزبان میں تحریرکئے جاتے ہیں۔ہرمقدمہ کے لئے ایک علیحدہ مسل مرتب کی جاتی ہے،جس میں موجودتقریباً تمام دستاویزات اردوزبان میں ہوتی ہیںلیکن مقدمہ کافیصلہ انگریزی زبان میں لکھاجاتاہے۔قومی زبان کے ساتھ ہمارایہ طرزعمل ایساہے جیسے ہم پاکستانی قوم نے زندگی کازیادہ عرصہ یورپ اورامریکہ میں گزاراہے۔جیسے ہمارے بچوں نے تعلیم انگلستان میں حاصل کی ہے اورہمارے سارے افسران کیمبرج، لکن ان اوراکسفورڈسے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔
اگر ایسا نہیں ہے توپھرہم کس خوش فہمی میں مبتلاہیں اورکس احساس برتری کے تحت ہم نے اپنے اوپر انگریزی زبان مسلط کردی ہے۔ہمارے افسران کس قدرفخرسے سراٹھاکرکہتے ہیں ”ہمیں اردونہیں آتی ”۔میں ایسے لوگوں کو یہ پیغام دیتاہوں کہ اردوتوآتے آتے آئے گی لیکن خداکی قسم تم لوگوں کو انگریزی کبھی نہیںآئے گی۔کیاتمہاری تعلیم نے تمہیں سیہ سکھایاہے کہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرو۔ عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل نہ کرو۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ارشادات کو پس پشت ڈالو اور پوری قوم کی سب سے بڑی ضرورت کو نظراندازکرو۔ قومی زبان پر فخرکروگے توپڑھے لکھے کہلائوگے ، پاکستانی کہلائوگے اور تہذیب یافتہ لوگوں میں شمارہونگے ورنہ مغرب کی تقلید میں آندھے رہو گے۔