تحریر : پروفیسر رفعت مظہر عجیب ملک ہے یہ بھارت بھی جو ایٹمی طاقت بھی ہے اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا دعویدار بھی لیکن جھوٹ اور منافقت کے بغیر لقمہ نہیں توڑتا ۔ بھارتی وزیرِخارجہ سشما سراج نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیر کا خواب دیکھنا چھوڑ دے اور بلوچستان کی طرف دھیان کرے۔ کیا یہ جھوٹ کی انتہا نہیں کہ سشماسراج اُسی اقوامِ متحدہ میں تقریر کر رہی تھی جس نے 1948ء میں کشمیر میں استصواب رائے کی قرارداد منظور کی تھی جس پرآج تک عمل درآمد نہیں ہوا ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ لے کر جانے والا بھی خود بھارت ہی تھا۔ کیا یہ جھوٹ اور منافقت کی انتہا نہیں کہ عالمی ایجنڈے پر کشمیر متنازع علاقہ ہے لیکن بھارت اُسے اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں ہرطرف پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ ہر شہر میں مودی کے پُتلے جلائے جا رہے ہیں۔ اکبر بگتی کے پوتے شاہ زَین بگتی نے بَرملا کہہ دیا کہ وقت آنے پر وہ پاکستان کی خاطر اپنی جان بھی قُربان کر دیں گے۔
بھارت اپنے چند بے غیرت ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان کو متنازع علاقہ قرار دے رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد آج تک کرفیو نافذ ہے لیکن عزم وہمت کے پیکر کشمیری نوجوان کرفیو کی دھجیاں بکھیرتے سڑکوں پر آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن بلوچستان میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ کہیں پاکستان کے خلاف کوئی جلوس نکلتا ہے نہ نعرہ لگتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر جگہ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے ہیں اور سبز ہلالی پرچم بھی لہرائے جاتے ہیں لیکن بلوچستان میں آج تک کبھی ترنگا نہیں لہرایا البتہ نریندرمودی پر تبّرے بازی ضرور ہوتی ہے ۔ سشماسراج کو بلوچستان کا نام لیتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی حالانکہ سشما بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ پوری دنیا میں سوائے مودی کے بَدبودار ذہن کے کہیں بھی بلوچستان کو متنازع علاقہ قرار نہیں دیا جا رہا۔
سشماسراج نے اپنی تقریر میں دوسرا بڑا جھوٹ یہ بولا کہ مقبوضہ کشمیر میں کہیں بھی ظلم وتشدد نہیں ہو رہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں وحشت وبَربریت کی انتہا کی جا رہی ہے جس سے پورا عالمی میڈیا آگاہ ہے اورسوشل میڈیا پر ایسی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ بھارتی پیلٹ گَنوں کے شکار معصوم بچوں کی تصاویر عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں لیکن سشما کو کہیں تشدد نظر نہیں آتا شاید اُس کی آنکھوں میں بھی پیلٹ گَن کے چھرے گھُس گئے ہوں گے۔
Sushma Swaraj
سشماسراج نے تیسرا جھوٹ یہ بولا کہ بھارت نے مذاکرات کے لیے کبھی کوئی شرط نہیں رکھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ہمیشہ مشروط مذاکرات کی بات کرتا ہے ،ایسے مذاکرات جن کے ایجنڈے میں کشمیر شامل نہ ہو ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ جب سرتاج عزیز مذاکرات کے لیے بھارت جانے کو تیار بیٹھے تھے ، تب انہی محترمہ نے کہا تھا ”ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ایجنڈے میں کشمیر شامل نہیں ہوگا”۔ اسی بنا پر مذاکرات نہ ہو سکے۔ آج وہی محترمہ کہہ رہی ہیں کہ بھارت نے تو کبھی کوئی شرط ہی نہیں رکھی۔ ہم تو اُنہیں یہی کہہ سکتے ہیں کہ”شرم تم کو مگر نہیں آتی”۔ بھارتی بَدحواسیوں کا یہ عالم ہے کہ نریندر مودی کبھی ”اُڑی” حملے کا بدلہ لینے کی بات کرتے ہیںتوکبھی ”شانتی ، شانتی” پکارنے لگتے ہیں۔
اُنہوں نے سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کرکے ہماری دِلی مراد پوری کر دی کیونکہ ایسے منافق شخص سے اپنے پاک وطن کی زمین کو ناپاک کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ وہ کبھی ایٹمی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں تو کبھی پانی بند کرنے کی لیکن مذہبی جنونی نریندر مودی شاید نہیں جانتے کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی میں بھارت سے کہیں بہتر اور بَرتر ہے۔
ہمارے ایٹمی میزائل بھارت کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتے ہیں ۔ یہ بجا کہ خاکم بدہن پاکستان کا وجود بھی نہیں رہے گا لیکن ہمارا تو مطلوب ومقصود ہی شہادت ہے ۔ ویسے بھی بیس کروڑ کے مقابلے میں بھارت ایک سو بیس کروڑ ہے ۔ شنید ہے کہ ہندو لالہ بڑا حسابی کتابی ہوتا ہے۔ حساب لگا کے دیکھ لیں ، اگر سودا گھاٹے کا لگے تو رام رام جَپتا کھسک لے ، بصورتِ دیگر ہم تیار ہیں۔ رہی پاکستان کا پانی بند کرنے کی بات تو سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت ایسا کر ہی نہیں سکتاکیونکہ عالمی بینک نے اِس کی گارنٹی دی ہوئی ہے ۔ مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے ” پانی کو روکنا اعلانِ جنگ ہوگا۔
The World Bank
عالمی بینک نے مداخلت کا یقین دلایا ہے سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے۔ بھارت یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم نہیں کر سکتا۔ اگر بھارت نے خلاف ورزی کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا”۔ ویسے بھی بھارت نے اگر ایسی کوئی کوشش کی تو ہمارا عظیم دوست چین بھی بھارت کا پانی بند کر سکتا ہے کیونکہ اُس کو بھی ایسا کرنے کاجواز مِل جائے گا۔ بھارت کا جنگی جنون پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ بھارت جس محدود جنگ کی پلاننگ کر رہا ہے ، وہ ایٹمی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے جس پر ہماری بہادر افواج کی گہری نظر ہے۔ پاک فوج مغربی سرحدوں پر مصروف ضرور ہے لیکن اُس کی مشرقی سرحدوں پر بھی بھرپور نظر ہے اور وہ کسی بھی جارحیت کا مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے پُر عزم لیکن اندرونی طور پر ہمارے سیاستدانوں کا رویہ کسی بھی صورت میں لائقِ تحسین نہیں۔
اندرونی انتشار روزبروز بڑھتا چلاجا رہا ہے حالانکہ اِس وقت پوری قوم کو متحد ہو نا چاہیے تھا کیونکہ جنگیں ہمیشہ اتحاد ویگانگت سے ہی جیتی جاتی ہیں۔ یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ہوسِ اقتدار میں کپتان صاحب سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور رائیونڈ کا رُخ کرنے کی بھرپور تیاریوں میں ۔ مسلم لیگ نواز نے اچھا کام یہ کیا ہے کہ تحریکِ انصاف کے لیے میدان کھُلا چھوڑ دیا ہے جس سے تصادم کی فضا میں کمی آئی ہے ۔ کپتان صاحب گلی گلی گھوم کر لوگوں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں ۔ دعویٰ اُن کا یہ ہے کہ اڈا پلاٹ رائیونڈ روڈ پر پورے پاکستان سے قافلے آئیں گے اور دو لاکھ سے زائد کا مجمع ہو گا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ پچاس ہزار افراد بھی اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ اُن کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
سونامیے گلی گلی میں یہ دُرفتنیاں چھوڑ رہے ہیں کہ حکومت پٹرول پمپس بند کر رہی ہے اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ۔ ہم نے پورے لاہور کا چکر لگایا لیکن فی الحال تو ایسا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ راستے کھُلے ہیں اور پٹرول پمپس پر حسبِ معمول پٹرول کی ترسیل جاری ہے ۔ پتہ نہیں سونامیوں کو قبل از وقت ہی ڈرونے خواب کیوں آنے لگے ہیں۔