تحریر : واٹسن سلیم گل پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جو خدشات اور تحفظات ہیں ان کو رد تو نہی کیا جاسکتا کیونکہ میں خود اس موضع پر لکھتا رہتا ہوں .اور انتہا پسندی کے حوالے سے بھی تمام دنیا کی نظریں پاکستان پر رہتی ہے مگر ہمارے پڑوس میں ہندوستان واقع ہے اور حیرت انگیز طور پر اس میں اقلیتوں کا جو حال ہے اور ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر جس طرح دنیا بے خبر ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے.ویسے تو ہندوستان میں انتہا پسندی کوئ نئ بات نہی ہے اس کا آغاز تب ہوا جب 1925 میں آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندو تہزیب، ثقافت، لباس،رسم ورواج سب کچھ ہندوستان میں ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اُس کو گھر واپس لایا جائے گا.
ابتدا میں یہ تحریک کمزور تھی ان کے نظریے کو شہرت تب ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا. گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ ہندوستان کی عوام نے انتہا پسندی کی اس تحریک کو مسترد کیا اور اس جماعت پر پابندی لگ گئ۔ مگر آر ایس ایس اس دوران انڈے اور بچے دیتی رہی . آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پرشید، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل زکر ہیں یہ دراصل آر ایس ایس کی ناجائز اولاد ہیں.
بھارتیہ جنتا پارٹی 1951 میں بھارتیہ جانا سنگھ کے نام سے وجود میں آئ۔ جو 1977 میں جنتا پارٹی بن گئ۔ اسی طرح وشوا ہندو پرشید کا آغاز 1964 میں ہوا انتہا پسند بجرنگ دل دراصل اسی جماعت کا طلبہ وینگ ہے۔ یہ تمام انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں سنگھ پریوار (ایک خاندان ) کہلاتی ہیں جو آر ایس ایس کا حصہ ہیں۔ بابری مسجد کمیشن کے انچارج جسٹس ایم ایس لبرہان کے مطابق سنگھ پریوار ہی بابری مسجد سازش کے پیچھے ہے۔ لبرہان کمیشن نے ایل کے ایڈوانی ،وزیراعلی اتر پردیش کلیان سنگھ اور بی جے پی کے دیگر راہنماؤں کو قصوروار ٹھرایا۔ بی جے پی نے 84 کے الیکشن میں زبردست شکست کے بعد اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور ہندوّوں میں مزہبی نفرت اور تفریق کو ہوا دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہندو انتہا پسند تظیمیں مضبوط ہورہی تھیں کہ بھارتی ریاست نے 1984 میں آپریشن بلیو اسٹار کے زریعے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر دیا اور جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ سمیت بہت سے بہت سے سکھ راہنما قتل کر دیے گئے۔
نومبر 1984 میں تقریبا 3000 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد ایک ملین کے قریب سکھ ہندوستان چھوڑ کر یورپ، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ میں بس گئے ۔ پھر بابری مسجد کے خلاف ایک گھناونا کھیل جو 1949 میں شروع ہوا تھا کہ اسے رام کی جنم بھومی قرار دیا جائے۔ رام کی پیدائش کے حوالے سے ہندو پنڈت, رشی یہاں تک کے رامائن بھی خاموش ہے رام کی پیدایش کے زمانے پر بھی تضاد ہے۔ ویدوں سے پتا چلتا ہے کہ ہندو دھرم زمانوں کو چار مختلف زمانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آج کے زمانے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں اسے کل یوگ کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کے تین یوگ یعنی ست یوگ، ترتیایوگ اور دواپر یوگ گزر چکے ہیں۔ ویدوں کے مطابق رام ترتیا یوگ میں پیدا ہوئے تھے یہ زمانہ آج کے زمانے کے حساب سے 17 لاکھ 28 ہزار سال پر محیط تھا۔ اس کے بعد دواپریوگ کا دورانیہ آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار انسانی سا لوں کے برابر تھا۔ کل ملا کر یہ عرصہ آج سے لگ بھگ 25 لاکھ سال قبل تھا۔ ہم آج کے ترقی یافتہ انسان اپنی پوری کمپیوٹر سائینس کی موجودگی کے باوجود اہرام مصر کے بہت سے سربستہ رازوں سے آج بھی ناواقف ہیں۔ جو کہ محض 4 سے 5 ہزار سال قدیم ہیں۔ رام کی پیدائیش کے حوالے سے کسی کے پاس بھی کوئ ثبوت نہی ہے کہ رام کہاں اور کب پیدا ہوا تھا صرف رامائن میں ایودھیا کا زکر ہے رام کے زمانے میں ایودھیا کہاں واقع تھا اس پر بھی اختلاف موجود ہے مگر پھر بھی انتہا پسند ہندو تنظیموں نے یہ دعوایِٰ کر دیا کہ رام عین اسی جگہ پیدا ہوا تھا جہاں مغل سلطنت کے بانی بابر نے بابری مسجد بنوائ تھی.
وشوا ہندو پرشید , بجرنگ دل ،شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر بابری مسجد کے خلاف تحریک چلائ اور اسے مسمار دیا گیا اور اس کی جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کر دیا.اس دوران تقریبا 1200 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ بی جے پی کی یہ حکمت عملی کام کر گئ اور وہ بی جے پی جس کو 1984 کے انتخابات میں صرف دو نشستیں ملی تھیں وہ راتوں رات ہندوّں کی ہر دل عزیز پارٹی بن گی۔ 2002 میں گجرات میں ایک ٹرین سازش کی گئ جس میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا زیادہ تر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلی آج کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ اس کے ساتھ ہی انتہا پسند ہندوں بھارت میں رہنے والے مسیحیوں کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مدھیہ پردیش ، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہئے ہیں اور چرچز اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر کوئ ان کو روکنے والا نہی ہے۔ سنہ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا، اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے اور مقامی پولیس منہہ دیکھتی رہ گئ۔ 2007 اور 2008 اوڑیسہ کے مسیحوں کے لئے خوفناک یاد بن کر رہ گیا۔
سیکنروں مسیحی نوجوانوں کو گھروں اور دکانوں سے باہر نکال کر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ان واقعات کی ویڈیوز موجود ہیں۔ مگر پھر بھی کوئ خاص اقدامات نظر نہی آئے کہ جس سے ہم یہ تیعن کریں کہ زمہ داروں کے خلاف کوئ کاروائ ہو رہی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر خاموش ہے۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مزہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ مسلمانوں کے طلاق کے مسلئوں میں ہندوؤں کی مداخلت بڑھ گئ ہے اور اب گائے کا ماں مان کر مسلمانوں کو قتل کرنے کا بہانہ تلاش کر لیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر سب خاموش ہیں۔ بات یہاں ختم نہی ہوتی۔ اس خطہ میں ایک ارب بیس کروڑ انسان ہیں۔ نفرت کی یہ چنگاری آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے۔ اور ایک گھر میں رہتے ہوئے اگر گھر والوں میں اس قدر نفرت بڑھ جائے تو گھر تو جلتا ہی ہے مگر ساتھ میں گھر والے بھی راکھ ہوجاتے ہیں۔ کا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھارت کے مظالم کے خلاف اس طرح متحرک نہی ہیں جیسے کہ انہیں ہونا چاہئے۔