کولکاتا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے اقدامات کے تحت ملک گیر لاک ڈاون کی وجہ سے شرح اموات میں کمی آئی ہے لیکن بعض حلقے یہ سوال کررہے ہیں کہ آیا یہی حقیقی صورت حال ہے؟
کووڈ۔انیس کے اثرات کا تعین کرنے کے لیے دنیا بھر میں شرح اموات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ گزشتہ برس کے اواخر میں چین سے پھیلنے والی اس وبا نے اب تک تقریباً تیس لاکھ افراد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور دو لاکھ پانچ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں بعض ملکوں میں شرح اموات میں کافی تیزی آئی ہے لیکن بھارت میں صورت حال اس کے برخلاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد تقریباً 28 ہزار ہے جبکہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اب تک 826 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن بعض حلقے بالخصوص ہسپتالوں، شمشان گھاٹوں، قبرستانوں اور میت کو خدمات فراہم کرنے والے ادارے اس تعداد پر حیرت اور تعجب کا اظہار کررہے ہیں۔
بھارت کے شہر نشاط کولکاتا اور ٹیکنالوجی کا مرکز کہلانے والے بنگلورو میں میتوں کے لیے خدمات فراہم کرنے والی کمپنی انتھیسٹی فیونرل سروسز کی چیف ایگزیکٹو شروتی ریڈی کہتی ہے”یہ ہمارے لیے بہت حیران کن ہے۔” کہ ان کی کمپنی نے جنوری میں روزانہ تقریباً پانچ میتوں کی آخری رسومات ادا کیں لیکن رواں ماہ یہ تعداد یومیہ صرف تین ہے۔ اور اگر صورت حال یہی رہی تو آمدنی کم ہوجانے کی وجہ سے ہمیں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کرنی ہوگی۔”
دیگر شہروں کی کہانی بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وسطی ممبئی میں تقریباً بارہ ملین افراد رہتے ہیں۔ لیکن وہاں کے بلدیاتی ادارے (بی ایم سی) کے اعدادو شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں اموات کی شرح میں گزشتہ برس اسی ماہ کے مقابلے میں تقریباً 21 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمدآباد میں بھی اسی مدت میں اموات کی شرح میں مجموعی طور پر67 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔
دو دیگر شہروں کے اعدادو شمار اور ریاستی صحت حکام کے بیانات بھی اسی رجحان کی تصدیق کرتے ہیں۔ میتوں کوخدمات فراہم کرنے والے تقریباً نصف درجن دیگر ادارے بھی بتاتے ہیں کہ بالخصوص اپریل میں ان کا کاروبار کم ہوگیا ہے۔
پبلک ہیلتھ فاونڈیشن آف انڈیا میں وبائی امراض کے پروفیسر گری دھر بابو کا تاہم کہنا تھا” اگر ہمیں اموات میں اضافہ نہیں دکھائی دے رہا ہے تویہ شبہ کرنا درست نہیں ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعد اد اس سے زیادہ ہیں۔”
وزیر اعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کے تحت ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے بھارت میں 25 مارچ کو ملک گیر لاک ڈاون نافذ کردیا تھا۔ اس وبا سے اب تک تقریباً 28 ہزار افراد متاثر اور 826 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کورونا پر نگاہ رکھنے والے ادارے کووڈ ٹریکنگ پروجیکٹ کے مطابق بھارت میں تقریباً پانچ لاکھ 25 ہزار افراد سے زیادہ کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن میں چار فیصد افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جبکہ امریکا میں یہ شرح18فیصد ہے۔
بھارت کی کم شرح اموات دنیا کے دیگر حصوں کی صورتحال کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر ہالینڈ میں اپریل کے پہلے ہفتے میں معمول سے تقریباً دو ہزار زیادہ اموات ہوئیں۔ اسی طرح انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں بھی مارچ میں ہلاکتوں کی تعداد میں کافی اضافہ دکھائی دیا۔ اٹلی کے بعض شہروں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی رہی۔
بھارتی ڈاکٹروں، سرکاری حکام اور شمشان گھاٹ کے ملازمین کا خیال ہے کہ شرح اموات میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ سڑک اور ریل حادثا ت میں کمی آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت میں سڑک حادثات میں ایک لاکھ 51 ہزار 400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو دنیا میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
روڈ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت کے ڈائریکٹر پریش کمار گوئل کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے سبب 2018 کے مقابلے میں اس سال سڑک حادثات میں ہونے والی اموات میں کم از کم 15 فیصد کی کمی آئے گی۔
لاک ڈاون کی وجہ سے چونکہ ٹرینیں بھی نہیں چل رہی ہیں اس لیے ٹرین حادثات میں ہونے والی اموات میں بھی کمی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ صرف ممبئی میں ہی ہر روز عام طور پر تقریباً ایک درجن لوگ ریل حادثات میں موت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
اترپردیش میں دریائے گنگا کے کنارے واقع ایک شمشان گھاٹ کے انچارج نیرج کمار کا کہنا ہے کہ جرائم کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والوں کو بھی اب آخری رسومات کے لیے نہیں لایا جارہا ہے۔ کمار بتاتے ہیں ”پہلے ہم روزانہ کم سے کم ایسے دس لاشوں کی آخری رسومات ادا کرتے تھے، جن میں کچھ حادثات او رکچھ قتل سے متعلق ہوتے تھے لیکن لاک ڈاون کے بعد ہمیں صرف فطری اموات سے مرنے والوں کی لاشیں ہی مل رہی ہیں۔” نیرج کمار شمشان گھاٹ میں رکھے ہوئے ریکارڈ بک دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ”پہلے یہاں روزانہ تقریباً تیس لاشوں کا ‘انتم سنسکار‘ کیا جاتا تھا لیکن 22 مارچ سے لے کر آج تک صرف 43 لوگوں کی ہی آخری رسومات ادا کی گئیں۔”
سرکاری حکام تاہم کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لاک ڈاون کے سبب لوگ لاشوں کو نہیں لارہے ہیں۔ احمد آباد میونسپل کارپویشن کے محکمہ صحت میں سینئر افسر ڈاکٹر بھون جوشی کا کہنا تھا”لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد اس میں اضافہ ہوسکتاہے۔”
کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے سلسلے میں نیشنل رجسٹرار سے ملک گیر ڈیٹا فراہم کرنے کی روئٹرز کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ نئی دہلی میونسپل کونسل کے ایک اہلکار نے کہا کہ وہ اس طرح کا اعدادوشمار نہیں دے سکتے۔