ابوظہبی (جیوڈیسک) ابوظہبی میں جاری ستاون اسلامی ملکوں کی نمائندہ تنظیم ’او آئی سی‘ کے وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی مخالفت اور بائیکاٹ کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت کو بھارت کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
متحد ہ عرب امارات کے زیر اہتمام منعقدہ ’آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن‘ کے دو روزہ اجلاس میں ’اعزازی مہمان‘ کے طور پرتقریر کرکے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جہاں ایک نئی تاریخ رقم کردی وہیں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اجلاس کا ’اصولی بنیاد‘ پر بائیکاٹ کیا۔
پلوامہ واقعہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ ناخوشگوار واقعات کے پس منظر میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کا نام لیے بغیر دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کے خلاف سخت حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا ’’ دہشت گردی کا دائرہ بڑھا ہے ، یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے ، دہشت گردی کو پناہ دینے اور انہیں مالی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی خاص مذہب کے خلاف لڑائی نہیں ہے۔‘‘
آج بروز جمعہ یکم مارچ کو بھارتی وزیر خارجہ نے ’او آئی سی‘ میں بھارت کو اعزازی مہمان کے طور پر شرکت کی اجازت دینے پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرنے والی تنظیم میں شرکت کرنا بھارت کے لیے فخر کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ وہ اس ملک کی نمائندہ ہیں جو علم کا مرکز رہا ہے،امن کا پیامبر رہا ہے، اعتقاد اور روایات کا وسیلہ رہا ہے، بہت سارے مذاہب کا مسکن رہا ہے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے ۔ بھارت میں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں اور وہاں تمام مذاہب اور ثقافتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔‘‘
او آئی سی کی پچاس سالہ تاریخ میں بھارت کی شرکت اس لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل ہے کہ اس تنظیم نے اپنے اجلاس میں بھارت کا ہمیشہ بائیکاٹ کیا جب کہ دو تین ملکوں کو چھوڑ کر دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں رہتی ہے تاہم اس تنظیم کی رکنیت تو درکنار اسے مبصر کا درجہ تک نہیں دیا گیا۔ بھارت کا الزام ہے کہ او آئی سی کے بانی ملکوں میں سے ایک پاکستان اس کی راہ میں ہمیشہ حائل رہا ہے ۔گذشتہ برس بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھارت کو مبصر کا درجہ دلانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوسکیں البتہ اس مرتبہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی پہل پر بھارت کو نہ صرف دعوت ملی بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے اعزازی مہمان کے طورپر خطاب کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی نہ صرف بڑی سفارتی کامیابی ہے بلکہ اس پیش رفت کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ معروف دانشور اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ’’او آئی سی نے پہلی مرتبہ اس بات کا ثبو ت دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہے ۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک بھارت کو اب تک جس طرح نظر انداز کیا جارہا تھا وہ انتہائی افسوس ناک فیصلہ تھا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ او آئی سی نے بھارت کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ وہ اسے بھارت کی کتنی بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں پروفیسر اخترالواسع کا کہنا تھا ’’یہ بھارت کی سفارتی کامیابی تو ہے ہی۔ لیکن اس کے لیے او آئی سی کے رکن ملکوں کی فہم و فراست کی بھی دا د دینی چاہیے۔‘‘
یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ گذشتہ دنوں پاکستان کے بالاکوٹ میں جیش محمدکے مبینہ ٹھکانے پر بھارتی فضائیہ کے حملہ کی او آئی سی نے مذمت کی تھی لیکن آج یکم مارچ کوبھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسی پلیٹ فارم سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’بھارت کی لڑائی کسی ملک سے نہیں بلکہ دہشت گردی سے ہے اور بھارت ایک ذمہ دار ملک ہے۔‘‘ مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع کے خیال میں’’ وزیر خارجہ نے جو تقریر کی ہے وہ صرف بھارت کی تشویش نہیں بلکہ ساری دنیا کی تشویش ہے۔ ‘‘
خیال رہے کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات سے بھارت کا دعوت نامہ واپس لینے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ بصورت دیگر پاکستان، اجلاس میں شرکت کرنے کے اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہوگا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج پاکستانی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی اجلاس میں سشما سوراج کی شرکت ان کی سمجھ سے بالا تر اور یہ تنظیم کے اصولوں کے خلاف ہے۔
تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کی شرکت صرف سفارتی کامیابی ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی کے حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا مظہر بھی ہے۔مودی باہم مخالف ملکوں کے ساتھ دوستی قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ خواہ سعودی عرب ہو یا ایران، متحدہ عرب امارات ، قطر، مصر اور ترکی یا پھر اسرائیل بھارتی وزیر اعظم سب کے ساتھ یکساں دوستانہ تعلق قائم کرکے عالمی سیاست میں بھارت کو ایک نیا مقام دے رہے ہیں اور اب او آئی سی میں بھارت کی موجودگی کی وجہ سے کشمیر کے متعلق منظور ہونے والے قراردادوں میں بھی نمایا ں تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔