بھارت اپنی عسکری صلاحیتیں کتنی تیزی سے بڑھا رہا ہے؟

Aircraft Training Exercises

Aircraft Training Exercises

راجھستان (اصل میڈیا ڈیسک) ماہرین کے مطابق بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورت حال اور سکیورٹی منظرنامے کے باعث بھارت نا صرف تیزی سے اپنی عسکری استعداد بڑھا رہا ہے بلکہ اسے جدید تر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی ریاست راجھستان میں 24 دسمبر کو مِگ 21 طیارہ تربیتی مشق کے دوران گر کر تباہ ہو گیا اور پائلٹ ہلاک ہو گیا۔

یہ واقعہ سن 2021 میں پیش آنے والے کئی فضائی حادثوں کا تسلسل تھا اور یہ سال بھارتی فوجی ہوا بازی کے لیے مہلک ترین ثابت ہوا۔

اس واقعے سے چند ہفتے قبل ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں بھارت کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

ابھی ہیلی کاپٹر حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری تھیں کہ ایک برس کے دوران پانچواں مگ 21 طیارہ تباہ ہو گیا۔

ان واقعات کے باعث بھارت میں پرانے عسکری ساز و سامان اور بھارتی فوج کو جدید بنانے کے بارے میں پھر سے بحث شروع ہو گئی۔

فوج کو جدید بنانے کا عمل کہاں تک پہنچا؟
بھارتی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں تبدیل ہوتی سیاسی و جغرافیائی صورت حال اور برصغیر کے سکیورٹی منظر نامے نے بھارتی حکومت کو فوج کو جدید بنانے پر راغب کیا ہے۔

منی پال اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن میں بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر امریتا جاش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ برس ہم نے اچانک فوج کو جدید بنانے کے عمل میں تیزی دیکھی جس کی وجہ چین کے ساتھ لداخ میں جاری کشیدگی اور پاکستان کے ساتھ مستقل کشیدگی ہے۔‘‘

تاہم قومی سلامتی سے متعلق امور کے ماہر بھارت کارناڈ کہتے ہیں کہ فوج کو جدید بنانے کا عمل بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کیا جا رہا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”بھارت میں فوج کو جدید بنانے کا منصوبہ ہمیشہ ہی ایک غیر معمولی کام رہا ہے جو صرف متعلقہ سروسز کے ڈائریکٹوریٹ کے تیار کردہ منصوبوں کے مطابق ہوتا ہے۔‘‘

کیا مشکلات درپیش ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل میں بھارت کے لیے سب سے بری مشکل دفاعی بجٹ ہے۔ سن 2020 میں بھارت کا مجموعی دفاعی بجٹ 72.9 ارب ڈالر تھا جب کہ اس کے مقابلے میں چین کا دفاعی بجٹ 178 ارب ڈالر تھا۔

بھارت کارناڈ کے مطابق، ”جدید بنانے کا انحصار فوج کو دیے گئے بجٹ پر ہے۔ بھارت کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ افرادی قوت پر انحصار کرنے کے لیے بھارتی فوجیوں کی تنخواہوں کی مد میں بہت زیادہ بجٹ استعمال ہو جاتا ہے۔‘‘

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کارناڈ نے بتایا، ”فوج نے سن 2020-21 میں مکمل 56 فیصد بجٹ لیا اور اس میں سے صرف 18 فیصد یعنی سات ارب ڈالر جدید اسلحے کی خریداری کے لیے مختص کیے۔ اتنے پیسوں سے تو فوج جدید نہیں بنائی جا سکتی۔‘‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت سے فوج کو جدید بنانے کے لیے کلیدی کام بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے۔ موجودہ 17 ‘سنگل سروس یونٹس‘ کو یکجا کر کے پانچ ‘تھیٹر کمانڈز‘ بنایا جانا ہے تاکہ مستقبل میں کشیدگیوں سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکے۔

امریتا جاش کے مطابق یہ اصلاحات فوج کو جدید بنانے کے لیے نہایت اہم ہیں۔

انہوں نے کہا، ”جدیدیت صرف ہتھیاروں، پلیٹ فارمز اور آلات سے متعلق ہی نہیں کیوں کہ اب ہم کمانڈز کی تھیٹرائزیشن کی بات بھی کر رہے ہیں جس میں یہ تینوں عناصر شامل ہیں۔ چین پہلے ہی تھیٹرائزیشن کی جانب بڑھ چکا ہے۔‘‘

سن 2020 میں دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ سیاچن کے بارے میں ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ انتہائی ضروری عسکری ساز و سامان کتنا کم دستیاب ہے۔ کئی دیگر رپورٹس میں بھی گزشتہ دہائی کے دوران متروک ہو جانے والے اسلحے اور آلات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔

کارناڈ نے بتایا، ”ان پرانے اور متروک ہتھیاروں میں سب سے نمایاں مگ 21 طیارے بھی شامل ہیں، جنہیں بھارتی فضائیہ سے مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے۔‘‘

سائبر جنگ پر مزید توجہ کی ضرورت
مگ اکیس جیسے طیارے ابھی تک کیوں استعمال میں ہیں؟ اس بارے میں زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے طیاروں کے لیے رقم کی کمی ہے اور بری، بحری اور فضائی فوج کو ایک ساتھ جدید بنانے کی کوششوں کے باعث اخراجات زیادہ ہیں۔

دوسری رائے یہ بھی ہے کہ حکام کے لیے ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ بھارت کو کس قسم کے جیٹ طیارے درکار ہیں۔

علاوہ ازیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائبر اور ‘نیٹ ورک سینٹرک وار فیئرز‘ پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کارناڈ کہتے ہیں، ”چینی پیپلز لبریشن آرمی کے مقابلے میں مہلک کوتاہیاں شاید سائبر وارفیئر، اسٹریٹیجک اور میدان جنگ کے کمیونی کیشن سسٹمز میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان شعبوں میں کمزوری روز بروز بڑھ بھی رہی ہے۔‘‘

آگے کا راستہ کیا ہے؟
بھارت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے پانچ ممالک میں شامل ہے۔ مودی حکومت مقامی طور پر ہتھیاروں اور عسکری ساز و سامان کی تیاری پر زور دے رہی ہے۔

جاش کہتی ہیں، ”ہتھیاروں کی تازہ خریداری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سوچ کے عمل میں بھی اسٹریٹیجک تبدیلی لا رہے ہیں۔ اب ہم سوچ سمجھ کر ہتھیار خرید رہے ہیں۔‘‘

امریتا جاش بھارتی بحریہ میں جدت لانے کی تعریف بھی کرتی ہیں جس میں مقامی طور پر تیار کردہ طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ”بھارت مقامی طور پر تیار کردہ دفاعی سامان کی خامیاں دور کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ چاہے آئی این ایس وشال ہو یا وکرمادتیہ، درست غیر ملکی ہتھیاروں کی خریداری کے ساتھ ساتھ مقامی عسکری سامان کو بہتر بنانا ہی مستقبل کے لیے درست راستہ ہے۔‘‘