بھارت (جیوڈیسک) وزیر اعظم مودی کی نئی کابینہ میں شامل چھپن میں سے بائیس وزراء کے خلاف مختلف مجرمانہ مقدمات درج ہیں جبکہ سولہ وزراء نے اپنے خلاف اقدام قتل اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے جیسے سنگین جرائم کے مقدمات کا اعتراف کیا ہے۔
بھارت میں انتخابی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی نئی کابینہ میں شامل 56 وزیروں کے حلفیہ بیانات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے 22 یعنی 39 فیصد وزراء کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مختلف مقدمات درج ہیں جب کہ 16 یعنی 29 فیصد وزیروں کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 30 مئی کو وزیر اعظم مودی کے ساتھ ان کی 58 رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا تھا۔ اے ڈی آر کے مطابق چونکہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور صارفین کے امور کے وزیر رام ولاس پاسوان فی الحال بھارتی پارلیمان کے کسی بھی ایوان کے رکن نہیں ہیں، اس لیے ان کے حلف ناموں کا تجزیہ نہیں کیا جاسکا۔ اے ڈی آر کے مطابق 2014ء کی مودی کابینہ کے مقابلے میں نئی کابینہ میں شامل مجرمانہ نوعیت کے مقدمات میں ملوث وزیروں کی تعداد میں آٹھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ سنگین جرائم کے مقدمات میں ملوث وزراء کی تعداد میں یہ اضافہ 12 فیصد بنتا ہے۔
جن وزیر وں کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات زیر التواء ہیں، ان میں وزیر اعظم مودی کے بعد سب سے طاقت ور سمجھے جانے والے رہنما اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی شامل ہیں۔ ان کے خلاف چار مقدمات درج ہیں۔ امیت شاہ کو گینگسٹر سہراب الدین شیخ اور اس کی اہلیہ کوثر بی اور تلسی رام پرجاپتی کے ماورائے عدالت قتل کے معاملے میں 2010ء میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ البتہ بعد میں انہیں اس مقدمے میں عدالت نے بری کردیا تھا۔ امیت شاہ کے خلاف قتل، جبراً پیسہ اینٹھنے اور اغوا کے الزامات میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔
ان پر گجرات کے فسادات اور متعدد فرضی تصادم کے معاملات میں ملوث ہونے کے بھی الزامات لگائے گئے تھے۔ عدالت نے امیت شاہ کو 2010ء سے 2012ء تک گجرات میں داخل ہونے سے بھی روک دیا تھا۔ ستمبر 2012ء میں سپریم کورٹ نے انہیں گجرات واپس لوٹنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد انہوں نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ہوئے اور وزیر اعظم مودی کے دست راست اور سب سے بھروسہ مند ساتھی بن گئے تھے۔
مودی کابینہ میں شامل ایک اورنام پرتاپ چندر سارنگی کا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر ان کا کافی چرچا ہے۔ حکمران بی جے پی انہیں نہایت ایماندار اور سادگی پسند رہنما کے طور پر پیش کر رہی ہے اور انہیں مشرقی صوبے اوڈیشا کا مودی قرار دیا جاتا ہے۔ سارنگی نے اپنے حلف نامے میں اپنے خلاف سات مجرمانہ مقدمات کا ذکر کیا ہے، جس میں لوگوں کو دھمکانے، مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے اور جبراً پیسہ وصول کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔
دراصل پرتاپ چندر سارنگی کا نام اس وقت شہ سرخیوں میں آیا تھا، جب 1999ء میں اوڈیشا کے کیونجھر ضلع کے منوہر پور گاؤں میں ایک آسٹریلوی مسیحی مشنری گراہم اسٹینس اور ان کے دو کم عمر بیٹوں کو ایک جیپ میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس واردات کے وقت سارنگی شدت پسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے صوبائی صدر تھے۔ مسیحی برادری نے قتل کے اس بھیانک واقعے کے لیے بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس معاملے میں سارنگی کا رول مشتبہ پایا گیا تھا حالانکہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ آنے کی وجہ سے انہیں بری کر دیا گیا تھا۔
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
مائیکرو، اسمال اور میڈیم سائز صنعتوں اور ماہی پروری کے وزیر پرتاپ چندر سارنگی نے اپنی وزارت کا حلف لینے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”میرے خلاف درج تمام مقدمات جھوٹے ہیں۔ پولیس نے یہ مقدمات اس لیے دائر کیے کہ میں بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہوں۔ میں نے کرپشن کے خلاف سنجیدگی سے مہم چلائی ہے۔ میں نے سماج میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اسی وجہ سے میں بدعنوان افسروں کی نگاہ میں دشمن بن گیا۔ میں کئی کیسز میں بری ہو چکا ہوں اور آنے والے دنوں میں بقیہ تمام کیسوں میں بھی بری کردیا جاؤں گا۔“
سارنگی بجرنگ دل کے علاوہ ایک اور شدت پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ وہ 2004ء اور 2009ء میں اوڈیشا اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ 2014ء میں بھی انہوں نے پارلیمانی الیکشن لڑا تھا لیکن ہار گئے تھے۔
اے ڈی آر کے ایک سروے کے مطابق بھارت میں اٹھانوے فیصد ووٹروں کا کہنا ہے کہ مجرمانہ پس منظر والے افراد کو ملکی پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں میں نہیں آنا چاہیے۔ تاہم سبھی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی فائدے کے لیے ایسے افراد کو اپنے امیدوار بناتی ہیں۔ اس طرح قانون توڑنے والے مبینہ ملزمان ہی قانون ساز بن جاتے ہیں۔