بھارت: مودی کا وعدہ اور اقلیتوں کے خدشات

Narendra Modi

Narendra Modi

بھارت (جیوڈیسک) ملک کا نیا وزیر اعظم نامزد کیے جانے کے بعد نریندر مودی نے پارٹی کے ممبران پارلیمان اور کارکنوں سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے اور دل جیتنے کی تلقین کی ہے۔

حکمران قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی جانب سے ملک کا نیا وزیر اعظم نامزد کیے جانے کے بعد نریندر مودی نے پارٹی کے ممبران پارلیمان اور کارکنوں سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے اور دل جیتنے کی تلقین کی ہے لیکن ماضی کے واقعات کے مدنظر مسلم دانشور اور رہنما خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نامزد کیے جانے کے بعد نریندر مودی نے اپنی پہلی تقریر میں ملک میں پائے جانے والے خوف و ہراس کے ماحول پر حملہ کرتے ہوئے کہا: ”اب ملک میں کوئی بھی غیر نہیں، بلکہ سب اپنے ہیں اور سب کا ہمیں دل جیتنا ہے۔ اقلیتوں میں جو خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ ترقی کی دوڑ میں کوئی بھی بھارتی شہری پیچھے نہ رہ جائے اور اس کی فکر ہم سب کوکرنا ہے۔ سب کا ساتھ، سب کا وِکاس اور اب سب کا وشواس جیتنا ہے۔”

یہاں مسلم دانشوروں اور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ وزیر اعظم کی باتیں نہایت عمدہ اور امید افزا ہیں لیکن کیا ان پر واقعی عمل بھی ہوسکے گا؟ ماضی کے واقعات تو اس کے برخلاف دکھائی دیتے ہیں۔

مشہور تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز‘ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اقلیتوں اور مسلمانوں کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ بیان قابل ستائش ہے کہ و ہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن یہ عجیب وغریب معاملہ ہے کہ وزیر اعظم مودی جب بھی اس طرح کی اچھی باتیں کرتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ الٹا ہوتا ہے اور ان کے لوگ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں وہ خطاب کر کے اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کی بات کر رہے تھے تو دوسری طرف مدھیہ پردیش میں تین مسلمانوں کو ایک ہجوم کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ بنگال میں اب تک تشدد جاری ہے، بارک پور، جہاں سے بی جے پی کے امیدوار کی جیت ہوئی ہے۔ وہاں سے مسلمان نقل مکانی کررہے ہیں۔ ان کی دکانیں نذر آتش کی جارہی ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے ملک کی اقلیت چاہتے ہوئے بھی بھروسہ نہیں کر پارہی ہے۔”

مولانا آزا د یونیورسٹی جودھپور کے وائس چانسلر پدم شری پروفیسر اختر الواسع کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”حکومت وقت کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کے دکھوں پر مرہم رکھے۔ اس لیے نئی حکومت کو محض سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ لگانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اقلیتوں کے حقوق و اختیارات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔“

پروفیسر واسع کا مزید کہناتھا، ”مسلمانوں اور حکومت کے درمیان کافی دوریاں ہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے کوئی میکانز م ہونا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کو وزیر اعظم تک اپنی بات پہنچانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب تک مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت تک وزیر اعظم کے نیو انڈیا کے خواب کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ہے۔”

سینئر بھارتی صحافی سہیل انجم نے سوال کیا، ”مودی حکومت اول میں جس طرح عیسائیوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے کیا وہ ان کا اعتماد جیتنے کے لیے تھا؟ گزشتہ پانچ برسوں میں ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد کا مقصد کیا اقلیتوں میں اعتماد پیدا کرنا تھا؟ ایسے بے شمار واقعات ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مودی حکومت اول میں اقلیتوں کو بری طرح نشانہ بنایا گیااور اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اس کی آڑ میں ہندو ووٹ بینک کو پکا کیا جا سکے۔ ان ہندوؤں کو گول بند کیا جا سکے جو آر ایس ایس کے نظریے میں یقین رکھتے ہیں اور جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی مہم میں شریک ہیں۔“

ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔

سہیل انجم کا مزید کہنا تھا، ”بظاہر وزیر اعظم مودی کا مذکورہ بیان بہت اچھا ہے اور دلوں کو چھونے والا ہے لیکن در حقیقت وہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنے والا ہے۔ وزیر اعظم مودی اس سے قبل بھی دلوں کو چھونے والے بیانات دیتے رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ بڑے انصاف پرور اور اقلیتوں کے خیر خواہ ہیں، لیکن اقلیتوں کے خلاف ماحول سازی کرنے اور ان میں خوف و ہراس پیدا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ بھی دیتے رہے ہیں۔”

معروف ادیب اور روزنامہ سہارا کے چیف ایڈیٹر مشرف عالم ذوقی کا وزیر اعظم کے تازہ بیان کے حوالے سے کہنا تھا، ”بھارت کے مسلمان مودی جی کی تقریر پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ جو پانچ برسوں میں ہوا و ہ اب نہ ہونے پائے۔ اکہتر برسوں کے بعد مسلما ن خوف کی سیاست سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، وہ اڑنے کے لیے، جینے کے لیے آزادی چاہتے ہیں اور یہ کوئی بہت بڑی فرمائش نہیں ہے۔ یہ مودی کا دوسرا میگا راؤنڈ ہے اس راؤنڈ میں وہ اقلیتوں کا دل جیت سکتے ہیں۔”

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اور ممبر پارلیمان اسد الدین اویسی نے مودی کے بیان پر ٹوئیٹ کر کے کہا، ”اگر وزیر اعظم مودی اس بات سے متفق ہیں کہ اقلیت خوف میں جی رہی ہے توانہیں ان لوگوں کے بارے میں جاننا چاہیے جنہوں نے اخلاق کو مارا اور وہ بی جے پی کے انتخابی جلسے میں سب سے آگے بیٹھتے ہیں۔ اگر پی ایم یہ سوچتے ہیں کہ مسلم خوف میں جیتے ہیں تو کیا ان گروہوں پر لگا م لگائیں گے جو گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں، مارتے ہیں اور پھر ویڈیو بناکر ان کی توہین کرتے ہیں۔ اگر مسلمان خوف میں جیتے ہیں تو کیا پی ایم بتاسکتے ہیں کہ تین سو ممبران پارلیمان میں ان کی پارٹی کے کتنے مسلم اراکین ہیں۔ یہ دراصل منافقت اور تضاد ہے جس کا پی ایم مودی اور ان کی پارٹی گزشتہ پانچ برسوں سے مظاہرہ کررہی ہے۔”

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔