نئی دلی (جیوڈیسک) بھارت کے بازار حصص میں مودی کی ممکنہ فتحز کی خبر پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن پاکستان میں مبصرین اس کے ممکنہ اثرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے خیال میں مودی کی کامیابی سے پاک بھارت تعلقات پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ بھارت کے عام انتخابات کے نتائج جمعرات کو آنا شروع ہو جائیں گے۔ کئی سروے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی تین سو کے قریب نشستیں حاصل کر لیں گے۔ کچھ مبصرین کا یہ دعویٰ ہے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی ساڑھے تین سو نشتیں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے کچھ ہفتوں پہلے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اگر مودی انتخابات جیت جاتے ہیں تو دونوں ممالک میں ممکنہ طور پر تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔
تاہم پاکستان میں مبصرین کا خیال ہے کہ اس ممکنہ فتح کے پاک بھارت تعلقات پر بہتر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ مودی ایک انتہا پسندانہ ایجنڈے پر انتخابات میں گئے تھے، جس کا مرکزی نقطہ مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی تھا،’’تو ایسی صورت میں وہ پاکستان سے تعلقات بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان خیلج کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ افغانستان کا مسئلہ لے کر امریکا کے کان بھریں گے اور پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ روس پر بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان سے بڑھتی ہوئی قربت کو کم کرے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے کی ایک اور وجہ پاک چین تعلقات ہیں۔ ’’مودی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سخت مخالف ہیں۔ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اسلام آباد اور بیجنگ مل کر بھارت کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تو ایسی صورت میں وہ پاکستان کے ساتھ کیونکر اچھے تعلقات قائم کریں گے۔‘‘
عام تاثر یہ ہے کہ سخت گیر سیاسی خیالات رکھنے والے رہنما امن کے لیے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح ریگن نے سرد جنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ سخت گیر انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کیا جب کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا پختہ ارادہ رکھنے والے یاسر عرفات نے اوسلو کا معاہد ہ کیا۔ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں بھارتی وزیرِ اعظم واجپائی نے اعلانِ لاہور کیا۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ مودی واجپائی نہیں۔ اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ سخت گیر سیاسی نظریات کے حامل ہمیشہ ہی مذاکرات کریں،’’یہ صیح ہے کہ کچھ سخت گیر سیاست دانوں نے دنیا کے کئی ممالک میں امن معاہدے کیے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سخت گیر رہنما اس طرح کے معاہدے کرے۔ مودی نے اپنی پوری انتخابی مہم پاکستان اور مسلم دشمنی پر چلائی ہے۔ تو میرے خیال میں ان کے جیتنے سےتعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔ ان میں ایسے ہی جمود رہے گا۔‘‘
پرانے نوٹوں کی بندش اور تبدیلی کے لیے دستیاب قلیل وقت کے سبب مختلف بینکوں کے سامنے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع دکھائی دیتی ہے۔
جموری ممالک میں اگر سیاسی جماعتوں کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہو تو وہ فیصلے آسانی سے کر لیتی ہیں۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مودی کو دو تہائی اکثریت ملتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ امن کے لیے قدم اٹھائیں۔ معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیا الدین نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارت میں یہ انتخابات گزشتہ عام انتخابات سے مختلف تھے۔ اس وقت مودی ایک چیلنجرتھے لیکن اب وہ پانچ برسوں سے حکومت کر رہے ہیں۔ ان کی ہندوتوا کی پالیسی بھی برہمن کو خوش کر سکتی ہے لیکن نچلی ذات کے ہندؤں کے لیے اس میں کو ئی کشش نہیں ہے۔
ممتا بینر جی اور کانگریس بھی اب کی بار بہتر پوزیشن میں ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ کانگریس پہلے سے بہت زیادہ نشتیں حاصل کر سکتی ہے۔ تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی شاید بہت زیادہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں۔ تو کم اکثریت کے ساتھ وہ مزید سخت گیر ہو جائیں گے لیکن اگر انہیں دو تہائی اکثریت ملتی ہے تو پھر وہ شاید مذاکرات کی طرف قدم بڑھائیں۔‘‘