بھارت میں پیر سے ٹیلیگرام سروس ختم کرنے کا فیصلہ

India Telegrams

India Telegrams

نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت کے طول و عرض میں 163 سال تک لوگوں کو ٹیلیگرام پہنچانے والے خاکی یونیفارم پہنے لاکھوں ڈاکیے جو عام شہریوں کی زندگیوں میں اچانک ہلچل کا باعث بنتے تھے۔ پیر پندرہ جولائی کو یہ باب حتمی طور پر بند ہو جائے گا۔ ٹیلیگرام اکثر کوئی بہت مختصر لیکن انتہائی اہم پیغام ہوتا تھا۔

عام بھارتی خاندان ایسی اطلاعات کی فی لفظ قیمت ادا کر کے ایک دوسرے کو ایسے پیغامات بھیجتے تھے، جن میں کسی کی پیدائش یا موت کی خبر دی جاتی تھی، حکومت ایسے پیغامات کو خالی سرکاری آسامیوں کی بھرتی سے متعلق اعلانات کے لیے استعمال کرتی تھی اور اپنے گھروں سے اچانک غائب ہو جانے والے لڑکے لڑکیاں انہیں اپنے اہل خانہ کو یہ بتانے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ وہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے اپنی پسند کی شادی کر لی ہے۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔

سرکاری انتظام میں کام کرنے والی بھارتی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کی طرف سے آخری ٹیلیگرام آئندہ پیر پندرہ جولائی کو بھیجا جائے گا اور پھر سن 1850 میں شروع ہونے والی یہ سروس ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ اس کا مطلب ہو گا بھارت میں ٹیلی کمیونیکیشن کی تاریخ میں ایک اہم باب کی تکمیل اور بندش۔ ٹیلی مواصلاتی ترقی کے ای میل، بہتر زمینی ٹیلی فون رابطوں، موبائل فون اور ایس ایم ایس کے دور میں ٹیلیگرام کا نظام عرصہ ہوا تقریبا ماضی کی یادگار بن چکا تھا۔

لیکن پھر بھی یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں آج تک فعال رہا، یہ بات اس امر کا ثبوت ہے کہ ٹیلیگرام کا رواج کتنی مضبوطی سے بھارتی معاشرے کا حصہ بن چکا تھا۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ٹیلیگرام سروس عرصہ ہوا ختم کی جا چکی ہے۔ جہاں یہ سروس ابھی تک موجود ہے، وہاں اسے جدید سروسز کے ساتھ پرکشش بنائے رکھنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ صرف تین عشرے قبل ٹیلیگرام سروس کو بھارت میں ٹیلی مواصلات کا سب سے تیز رفتار اور قابل اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

پھر موبائل فون کا دور آیا تو عوامی پیغام رسانی کے انداز ہی بدل گئے۔ اس سال اپریل میں بھارت میں موبائل فون استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد 867 ملین یا قریب 87 کروڑ ہو چکی تھی۔ اس تعداد میں صرف چار سال پہلے کے مقابلے میں سو فیصد سے بھی زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ساتھ ہی گزشتہ صرف سات سال کے دوران ٹیلیگرام سروس کو جاری رکھنے لیکن صارفین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حکومت کو 250 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان بھی بھی ہوا۔

نئی دہلی کے تاریخی کشمیر گیٹ ٹیلیگرام آفس کی خاتون آفیسر لتا ہریت کا کہنا ہے کہ اب زیادہ تر لوگ صرف سرکاری نوعیت کے ٹیلیگرام بھیجنے کے لیے اس دفتر کا رخ کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب لوگ کسی کی پیدائش یا موت کی خبر دینے کے لیے ٹیلیگرام نہیں بلکہ ٹیلی فون اور موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی دور میں صرف اس ایک دفتر سے ٹیلیگرام بھیجنے والوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ تب اس دفتر سے روزانہ قریب دس ہزار ٹیلیگرام بھیجے جاتے تھے۔

آج ان کی روزانہ تعداد زیادہ سے زیادہ بھی سو کے قریب رہتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ سرکاری پیغامات اور عدالتی نوٹس ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں آج بھی ٹیلیگرام کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ قریب تیس سال قبل تک ٹیلیگرام سروس کے عروج کے دور میں پورے بھارت میں 45 ہزار ٹیلیگرام آفس ہوا کرتے تھے۔ اب ان کی تعداد صرف 75 ہے۔ چند روز بعد جب ٹیلیگرام سروس بند ہو جائے گی تو یہ دفتر بھی یا تو بند کر دیے جائیں گے یا کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال ہونے لگیں گے۔ پھر ماضی کا یہ تیز ترین مواصلاتی ذریعہ ہر حوالے سے بھارت کی ٹیلی کمیونیکیشن تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔