بھارتی سیکرٹری خارجہ سجھاتا سنگھ نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے، اس ناسور کے خاتمے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں، دہشت گردی کے مسئلے پر ہم حکومت پاکستان کے ساتھ ایک ہی صفحے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ہرممکن وسائل استعمال کرنا ہونگے اور ہم اس سلسلے میں پاکستان کی معاونت کرنے کو تیار ہیں۔
ہم دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے نہیں دے سکتے۔ دونوں ملکوں کو موجودہ حالات میں موثر اور بہتر انداز میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے مل کر کوششیں کرنا ہونگی۔ دونوں ملک امن و استحکام چاہتے ہیں، ہم خطے میں خوشحالی کے خواہشمند ہیں لیکن دہشت گردی اس منزل کے حصول میں رکاوٹ ہے۔اسے قبلبھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ آزاد کشمیر میں مجاہدین کا ڈھانچہ بدستور قائم ہے،دراندازی کا خطرہ ختم نہیں ہوا، مجاہدین لوک سبھا کے الیکشن کے دوران حالات خراب ہو سکتے ہیں تاہم سرحدوں پر فوج چوکس ہے جو ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف بھارتی فوج اور سی آر پی ایف جیسی بھارتی عسکری فورسز نے مقبوضہ جموں کشمیر کی 66,690 کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اور مذکورہ زمینوں کے مالکان کو کسی قسم کا کوئی کرایہ یا معاوضہ بھی نہیں دیا جا رہا۔
سیاحتی مقام گلمرگ میں بھی بھارتی فوج نے 175ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ اس بات کا انکشاف پی ڈی پی ایم ایل اے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محکمہ وزارت داخلہ جس کا انچارج کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے پاس ہے’ کی جانب سے اسمبلی میں تحریری جواب جمع کروائے جانے کے دوران ہوا ہے۔ عمر عبداللہ نے بھارتی فوج، دیگر عسکری اداروںاور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی زیر تحویل اراضی کے ہوشربا اعدادوشمار اسمبلی میں پیش کئے ہیں اوراس بات سے صاف انکار کیا ہے کہ جن لوگوں کی اراضی پر بھارتی فوج نے قبضہ کر رکھا ہے انہیں کوئی معاوضہ فراہم نہیں کیاجارہا ہے اور لوازمات مکمل ہونے کے بعد ہی معاوضہ فراہم کرنے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔
Terrorism Pakistan
وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر نے بتایاکہ بھارتی کی مرکزی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ فوج اور سی آرپی ایف کی زیر تحویل اراضی کا معاوضہ وصول کرتی ہے اور اس کے بعد ریاستی سرکا ر اس معاوضے کو اراضی مالکان تک پہنچاتی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 3324 عمارتیں فورسز کی تحویل میں تھیں جن میں سے 1856 عمارتیں اب بھی فوج کی تحویل میں ہیں اور ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں کہ ان عمارتوں کو خالی کروایا جاسکے۔ ایک طرف بھارتی آرمی چیف پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو دوسری جانب کشمیریوں کی زمینوں پر بھی قابض ہیں۔بھارت کی سیکریٹری خارجہ کا بیان کہ ”دہشت گردی کو ختم کرنے میں پاکستان سے تعاون کیلئے تیار ہیں ”مضحکہ خیز ہے ۔بھارت میں ایک درجن سے زائد دہشتگرد تنظیمیں پائی جاتی ہیں۔
بھارت پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تو اسے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے تنازعہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ہوگا۔بھارت پاکستان کو دہشت گردی ختم کرنے کے مشورے دینے کی بجائے بلوچستان، سندھ ، خیبر پختونخواہ اور ملک کے دیگرعلاقوں میں جاری دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرے۔خطہ میں امن کی بربادی کا ذمہ دار بھارت ہے جو اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار کرنے کیلئے تخریب کاری و دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر خطہ میں کسی صورت جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ بھارت نے افغانستان میں تخریب کاری کے ٹریننگ سنٹر قائم کر رکھے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان داخل کیا جارہا ہے۔ وطن عزیزپاکستان میں ہونے والی تخریب کاری ودہشت گردی کی وارداتوںمیں بھارت ملوث ہے جو پاکستان کو عدم استحکام اور نقصانات سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریائوں پر جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے اور بغیر جنگ لڑے پاکستان کو صومالیہ بنانے کی خوفناک سازش کر رہا ہے۔
ایک طرف اس کی یہ سازشیں ہیں اور دوسری طرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے پاکستان سے دوستی اور تعلقات بڑھانے کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بھارت خطہ میں امن چاہتا ہے تو مقبوضہ کشمیر سے اپنی آٹھ لاکھ فوج نکالے، کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ ختم کرے ۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے کھل کر بے نقاب کرے۔مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کا یہ بیان بھی خوش آیند ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ کشمیر ، سرکریک ، سیاچن اور دیگر معاملات کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ صرف تجارت پر بات ہو رہی ہے کشمیر کا مسئلہ کور ایشو ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے ساتھ صرف تجارت پر بات چیت مشرف کی پالیسی تھی موجودہ حکومت کی نہیں ہے ہم تمام معاملات کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں ۔پاکستان کا یہ اصولی موقف ہونا چاہئے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے بغیر بھارت سے تجارت ہر گز نہیں ہو سکتی۔پاکستان میں دہشت گردی کا واویلا کرنے اور الزام تراشی کا راگ الاپنے والا بھارت دنیا کے خطرناک ممالک میں سرفہرست ہے۔ افغانستان عراق اور شام سے بھی زیادہ بم دھماکوں میں آگے نکل گیا۔ روزانہ کئی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
بھارت کے نیشنل ڈیٹا سنٹر (ای بی ڈی سی) کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2013 میں بھارت بھر میں 212 بم دھماکے ہوئے جو 12 سالوں سے جنگ کا شکار افغانستان کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ ان دھماکوں میں 30 افراد ہلاک اور 246 زخمی ہوئے۔ افغانستان میں گزشتہ سال ہونے والے دھماکوں کی تعداد 108 بنگلہ دیش میں 75 اور شام میں 36 دھماکے ہوئے۔ اعدادو شمار کے مطابق نہ صرف گزشتہ سال بلکہ 2004 سے2013 تک کے عرصے میں بھی بم دھماکوں کے حوالے سے بھارت نے افغانستان اور عراق کو بھی پیچھے چھوڑا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والے مجموعی دھماکوں میں بھارت کی شرح 75 فیصد ہے۔