یہ ہے بھارت، جہاں آزادی کے 65 برس گذرجانے کے باوجود زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں ہر شعبہ حیات میں نظر انداز کیا گیا۔ تعلیم’ روزگار’ تجارت اور کاروبار میںناانصافی کو جاری رکھا گیا۔ اس پر ستم بالائے ستم انہیں فسادات کے ذریعہ محروم اور کمزور کیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی 65 سالہ تاریخ میں ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف تقریباً 50 ہزار فسادات کروائے گئے۔ ایسے فساد بھی رونما ہوئے جسے تاریخ ہرگز بھلا نہیں سکتی۔ مراد آباد’ ہاشم پورہ’ ملیانہ’ روڑکیلا’ جمشید پور’ بھیونڈی’ ممبئی’ اجمیر’ احمد آباد کے فسادات رونما ہوئے۔
مسلمانوں پر فرقہ پرستوں کے ظلم و بربریت کے بعد فرقہ پرست پولیس جوانوں نے مسلمانوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیاں ماریں۔ انڈیا میں جتنے بھی فسادات رونما ہوتے ہیں اس میں مسلمانوں کو دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ فساد کے بعد جب پولیس آتی ہے تو اکثریت کو روکنے کے بجائے الٹا اقلیتوں پر ظلم کرتی ہے۔ ملک بھر میں فسادات کے بعد تقریباً 45 تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیئے گئے لیکن تمام انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ کو برفدان کی نذر کردیا گیا۔ ممبئی کے فساد کے بعد جسٹس سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ 31 پولیس عہدیدار قتل اور لوٹ مار میں ملو ث تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حالیہ دنوں میں مہاراشٹرا کے دھولیہ میں لٹیروں میں پولیس جوان بھی شامل تھے۔ مسلمانوں کی معیشت کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی صنعتوں اور تجارتوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ ممبئی میں مسلم بہنوں کی عصمت ریزی کی گئی اور برہنہ پریڈ کروائی گئی۔ حالیہ مظفرنگر کے فسادات میں باجے بجاکر ان کی عصمت لوٹی گئی اور برہنہ کھیتوں میں بھگایا گیا۔
بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا اور جب اس پر انہوں نے احتجاج کیا تو ان کے سروں اور سینوں پر گولیاں داغی گئیں اور انہیں ٹاڈا کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔بھارت میں خواتین کی عزت و آبرو کے معاملہ میں دوپیمانے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار جہاں دہلی کی عصمت ریزی کے واقعہ پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات پر موم بتیوں کے ساتھ مظاہرے کرتے ہیں وہیں یہ لوگ احمد آباد’ ممبئی’ مظفر نگر’ کشمیر کی سینکڑوں مسلم خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔ کیا ایک مسلمان خاتون کی عزت ہندوستان کی عزت نہیں ہے۔کیا ایک مسلمان کا خون ہندوستان کا خون نہیں ہے۔بھارت میں جب تک مسلمان متحد و منظم نہیں ہوں گے اس وقت تک بستیاں جلائی جائیں گی’ ان کا خون بہایا جائے گا اور ریلیف کیمپوں میں زندگی گذارنا پڑے گی۔جس طرح گجرات کو ایک تجربہ گاہ بنایا گیا’ اسے مظفر نگر میں دہرایا گیا اسی طرح اسے ملک بھر میں دہرانے کی کوشش کی جائے گی۔ ہندوستان میں صرف معمولی تعداد میں رہنے والے سکھوں کی عبادت گاہ سنہری گردوارہ میں فوج داخل ہوگئی تو گاندھی خاندان کو سکھوں سے معافی مانگنا پڑی اور سکھ طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کو وزیر اعظم بنانا پڑا۔ اس کے برخلاف بھارت میں فرقہ پرست طاقتیں نہ صرف بابری مسجد میں داخل ہوئیں بلکہ مسجد کو شہید بھی کردیا’ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا’ مسلمانوں کی نسل کشی کی ‘ بچوں کو یتیم کیا’ مسلمان مائوں اور بہنوں کی عصمتیں لوٹیں اور مسلمانوں کو ملک کے مختلف مقامات پر ریلیف کیمپوں میں زندگی گذارنے پر مجبور کردیا اس کے باوجود مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونا نہیں چاہتے۔ آخر مسلمان کس طرح کی بربادی کے منتظر ہیں؟ بی جے پی جس کے صرف دو ایم پی ہوا کرتے تھے وہ 200 ارکان پارلیمنٹ کا خواب دیکھ رہی ہے۔
Babri Masjid
اقتدار تک پہنچنے کے لئے یہ طاقتیں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ سنگھ پریوار سے وابستہ جماعت اور اس کی طاقت اس ملک میں مسجد کی شہادت’ مسلمانوں کی عزت اور عصمت سے کھلواڑ’ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر’ گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی’ مظفر نگر کے مسلمانوں کی تباہی کی بنیاد پر اقتدار پر فائز ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ ایک طرف ہندوتوا طاقتیں سرگرم ہیں تو دوسری جانب سیکولرازم کے علمبردار کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ملک کو اگر ہندو راشٹرا بننے سے بچانا ہے تو اس ملک سے فرقہ پرستی کی بیج کو اکھاڑ کر پھینکنے کی ضرورت ہے۔اقلیتوں کے تحفظ کے لئے فرقہ پرست طاقتوں کو روکنا ضروری ہے۔ بھارت کی اقلیتیں خاص طور سے مسلمان پارلیمانی انتخابات سے خوفزدہ ہیں۔
انہیں محسوس ہورہاہے کہ اگر نریندر مودی جیسے شخص کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا تو مسلمانوں کا ملک میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ پورے ملک نے نریندر مودی کی حکومت نے جو رویہ مسلمانوں کے ساتھ کیا اس کو دیکھا۔آج بھی گجرات کی سیاست میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی نہیں ہے۔جبکہ گجرات میں مسلمانوں کی آباد ی چھ فیصد ہے لیکن ان کی نمائندگی کرنے والا ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں کے لیڈر کہلانے والے ملائم سنگھ یادو بھی نریندر مودی سے مل گئے ہیں انہیں محسوس ہوتاہے کہ بی جے پی کے تعاون کے بغیر وہ مسلمانوں کو خوف زدہ نہیں کرسکتے جبکہ ریاست میں سیکڑوں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ لیکن سماجوادی پارٹی نے فسادات کو روکنے کے بجائے انتظامیہ کو خاموش رہنے کی صلاح دی۔اگر سماجوادی پارٹی کی ریاست میں حکومت نہ ہوتی تو ہزاروںمسلمانوں کا قتل عام بھی نہ ہوتا۔ جب جب سماجوادی پارٹی کو اقتدار حاصل ہواہے بی جے پی کی طاقت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ریاست میں بی ایس پی کی حکومت ہو اور پہلے کی طرح ریاست میں ایک بھی فساد نہ ہو۔ نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ ہندوستان کی آبادی میں ہر 5 واں شخص مسلمان ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کیوں ہے۔ انکی بستیاں اور آبرو نشانے پر کیوں ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور کلکتہ کی دو مختلف عدالتوںنے دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار چار بے گناہ مسلمانوں کو آٹھ سال کے طویل عرصہ بعد رہا کیا ہے۔ ان چاروں کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا ۔بھارتی جیلوں میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہی ہے اور کئی کئی سال گزرنے کے باوجود ان کے خلاف بنائے گئے بے بنیاد مقدمات کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
ممبئی کی ایک سیشن عدالت نے مالیگائوں سے تعلق رکھنے والے مشتاق احمد کو آٹھ سال بعد یہ کہہ کر رہا کر دیا ہے کہ اس کے خلاف بھارتی پولیس اور ادارے کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں۔ عدالتی حکم پر جب مشتاق کو آرتھر روڈ جیل سے رہا کیا گیا تووہ اس بات پر پھوٹ پھوٹ کر رودیا کہ اس کی جوانی کے آٹھ سال بغیر کسی جرم کے قید کاٹنے میں ضائع کر دیے گئے ہیں۔ اس موقع پر مشتاق کو لینے کیلئے جمعیت علماء ہند کے کارکنان، اس کے اہل خانہ اور دیگر مسلمان موجود تھے۔ کلکتہ کی ایک سیشن عدالت نے بھی عبداللہ، طارق اختر اور نورالرحمن کو بے قصور بتاتے ہوئے ان تینوں مسلم نوجوانوں کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
یہ نوجوان بھی دہشت گردی کی مختلف دفعات کے تحت مختلف جیلوں میں بند رہے اور انہیں بھی آٹھ سال سے زائد عرصہ کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ کلکتہ کی سیشن عدالت نے کہاکہ ملزمان پر دہشت گردی اور بھارتی آئین کو تسلیم نہ کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے تاہم بھارتی پولیس ان کے خلاف کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہیں کر سکی ہے۔ بھارت میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد کو جعلی مقدمات کے تحت جیلوں میں ڈالا جارہا ہے اور ان کی ترقیوں کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔بھارتی جیلوں میں ہزاروں مسلمان ایسے ہی بے بنیاد مقدمات میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔