تحریر: محمد اشفاق راجا بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور سابق وزیر مملکت ششی تھرور نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے لوک سبھا میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کی حکومت کی مسلمان دشمن پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا مودی حکومت کی بے حسی کی وجہ سے ملک میں عدم برداشت کے واقعات بڑھ رہے ہیں جو دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ ششی تھرور ہندو ہیں، اقوام متحدہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں یہ عہدہ چھوڑ کر بھارت آئے تو سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور کانگریس کے دور حکومت میں جونیئر وزیر کے منصب پر فائز رہے۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ سیکولرازم کے دعویدار بھارت کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ کی حیثیت رکھتا ہے وہ مسلمان ہوتے یا ان کا تعلق پاکستان سے ہوتا تو متعصب ہندو ان کی بات کو من پسند معنی پہناتے اور ان کی باتوں میں طرح طرح سے کیڑے نکالتے لیکن وہ بھارت کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے رکن ہیں جو کئی بار اقتدار میں رہ چکی وہ خود بھی وزیر رہے اس لئے وہ اپنے اس معاشرے کی جو تصویر کھینچ رہے ہیں جس میں وہ شب و روز گزار رہے ہیں۔ اس کو حقیقت کے قریب ترین سمجھا جانا چاہیے۔بھارت میں متعصب ہندوؤں نے مسلمانوں کی زندگی تو ہر دور میں اجیرن کئے رکھی اور ان کا یہی رویہ آزاد ملک کے قیام کی جدوجہد کی بنیاد بنا۔
اگر بھارت کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک بہتر ہوتا تو شاید مسلمان علیحدہ وطن کے حصول میں اس مسئلے کا حل نہ ڈھونڈتے۔ مسلمانوں کے رہنماؤں نے ہندوؤں کے اس رویئے کی وجہ سے ہی فرقہ وارانہ مسئلے کا حل علیحدہ ملک کے قیام میں تلاش کیا، قائداعظم کا خیال تھا کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن قائم ہونے کے بعد دونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں گے لیکن آج تک یہ خواب حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔ پاکستان کے ساتھ بھارتی حکومتوں کا رویہ تو متعصبانہ ہے ہی، خود بھارت میں کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ بْرے سلوک کی مثالیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔
Cow
بھارتی صوبے گجرات میں جب نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے، بدترین مسلم کش فسادات ہوئے۔ جن میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان رکن پارلیمنٹ کو بھی زندہ جلا دیا گیا اس مقصد کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ ایک ریل گاڑی کو آگ لگائی گئی اور اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپا گیا اور پھر اس کے پردے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ نریندر مودی آج تک اپنی حکومت کے اس سیاہ دور پر پشیمان نہیں ہوئے۔ اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس کو باقاعدہ منصوبے کے تحت آگ لگائی گئی جس میں ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر ملوث نکلا اور ایک دیانتدار پولیس افسر اس کا کھرا ناپتے ناپتے اس تک پہنچ گیا تھا اور اس فوجی افسر کی گرفتاری ہونے والی تھی کہ یہ تفتیش کرنے والا پولیس افسر پْراسرار حالات میں مردہ پایا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان بھارت میں کتنے غیر محفوظ ہیں۔
جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں انتہا پسند ہندو کھل کھیل رہے ہیں۔ راہ چلتے عورتوں اور مردوں کو اس شبے میں قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ گائے کا گوشت لے کر جا رہے تھے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ گائے کا نہیں بھینس یا بکرے کا گوشت تھا۔ ایک گھر میں گھس کر ایک نوجوان کو اس الزام میں ہلاک کر دیا گیا کہ اس کے گھر کی فرج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا تھا۔ بعد میں یہ گوشت بھی بکرے کا ثابت ہوا۔ گوشت لے جانا تو رہا ایک طرف اگر کوئی مسلمان اپنی گایوں کا ریوڑ لے کر جا رہا ہو تو اسے اس شبے میں قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے ان گایوں کو ذبح ہی کرنا تھا ”جرم” کے ارتکاب سے پہلے ہی سزا دینے کا یہ چلن اب بھارت میں عام ہو چکا ہے۔ اس طرح کے واقعات پورے بھارت میں ہو رہے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ششی تھرور یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جب بہت بڑھ گیا تھا تو انصاف پسند ہندوؤں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور بہت سے اہلِ قلم نے اپنے ادبی اعزازات بطور احتجاج واپس کر دیئے تھے حتیٰ کہ ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے اعلان کیا کہ وہ ہندو ہے اور گائے کا گوشت کھاتا ہے اور آئندہ بھی کھاتا رہے گا۔بھارتی ہندو بھرے جلسے میں ایک ہندو کے اس اعلان پرمنہ لٹکائے بیٹھے رہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو عصبیت بھی ہے وہ مسلمانوں کے خلاف ہے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
Muslims Killing
بھارت میں چوٹی کے مسلم فن کاروں کے ساتھ بھی متعصبانہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے اور معمولی معمولی باتوں پر ان کی فلموں کے بائیکاٹ کی تحریکیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔شاہ رخ خان ہندوؤں کی اس ذہنیت کا نشانہ بن چکے اور کئی روز تک انہیں چھپ کر بیرون ملک رہنا پڑا تھا ان کے گھر کے باہر ہندوؤں نے اشتعال انگیزی کی تھی، مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف تقریر کرنے پر ایک مسلمان رکن اسمبلی کے خلاف پرتشدد مظاہرے کئے گئے حالانکہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے اور یہاں کے باشندے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہیں۔
مسلمان کشمیریوں کو ان کی حقِ خودارادیت کے حق میں تحریک کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کشمیری مسلمان عشروں سے اس مقصد کے لئے قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اس وقت پورے کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف بدترین تشدد روا رکھا جا رہاہے اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس تحریک کو کچلا جا رہا ہے۔ ان کی آنکھوں میں پتھر مارے جا رہے ہیں جن سے سینکڑوں لوگوں کی بینائی زائل ہو گئی ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے ریاست میں کرفیو نافذ ہے۔ اشیائے خوراک کی قلت ہے اور ہسپتالوں میں زخمیوں کا تسلی بخش علاج نہیں ہو رہا۔
ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے رہ رہے ہیں اور ہندوستانی تمدن پر مسلمانوں کی تہذیب کے اثرات پورے ہندوستان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت میں مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ انصاف کے ساتھ حکمرانی کی اور پورے برصغیر میں ایسی قابلِ تقلید مثالیں چھوڑیں جن کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے۔لیکن جب ہندوؤں کو حکمرانی کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے سیکولرازم کی دھجیاں بکھیر دیں اور اب بھارت کو ہندو ریاست قرار دینے کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
اگر یہ سلسلہ آگے بڑھا تو عین ممکن ہے ”تنگ آمد، بجنگ آمد” کے مصداق مسلمانوں کو بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے کوئی نیا لائحہ عمل مرتب کرنا پڑے اور بھارت میں کئی اور پاکستان وجود میں آجائیں۔ اس لئے بھارت کے رہنماؤں کو ایسے حشر سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے سیکولر ازم کا بھرم قائم رکھنا ہوگا ورنہ اتنے بڑے ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا اور گائے کے پجاری اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔