نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں مسلمانوں سے ناانصافی اور من پسند انصاف کی فراہمی کا ایک اور مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے میرٹھ کے علاقے ہاشم پورہ میں 42مسلمان نوجوانوں کے قتل کیس میں 16پولیس والوں کو بری کردیا ہے۔ اہلکاروں پر 1987میں مذہبی فسادات کے دوران 42مسلمان نوجوانوں کواغوا کر کے قتل کرنے کاالزام تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ 1987میں میرٹھ مذہبی فسادات کی زدمیں تھااور الزام یہ تھاکہ صوبائی مسلح کانسٹیبلری (پی اے سی) کی 41ویں بٹالین کے ایک دستے نے میرٹھ کے ہاشم پورہ محلے سے مسلمان نوجوانوں کوان کے گھروں سے نکالااور ٹرکوں میں بٹھاکر ساتھ لے گئے۔ اس کے بعدان نوجوانوں کی لاشیں میرٹھ سے تقریباً 50کلومیٹر دور مرادنگر میں ایک نہرسے ملیں۔
واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان ذوالفقارناصر نے عدالت میں بیان دیا تھاکہ پی اے سی کے اہلکار تقریباً 45لوگوں کوٹرک میں بٹھا کرلے گئے تھے۔ مرادنگر کے قریب ہمیں ٹرک سے اتاراگیا اور 2لوگوں کو میرے سامنے گولی ماردی گئی۔
میرا نمبر تیسرا تھا تاہم گولی میرے ہاتھ میں لگی اور میں بچ گیا۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے مردہ سمجھ کرنہرمیں پھینک دیا۔ بعد میں ذوالفقار ناصر نے سابق وزیراعظم چندر شیکھر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں واقعے کی تمام تفصیلات بیان کی تھیں۔