تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج بھارتی انتہاپسند ہندووں نے بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھا ہوا ہے اور جس طرح بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے لئے زندگی تنگ کی جارہی ہے اَب یہ سب کچھ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور ہندوستان کے ہندوو ¿ں کا مسلمانوں سے ہتک آمیز رویہ بھی ساری دنیا میں بھارتی چہرے کوبے نقاب کررہاہے اگر ابھی دنیا کی اِنسانی حقوق کے لئے آوازیںبلند کرنے والی عالمی تنظیمیں اور یورپی ممالک بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی انتہا پسند ہندوو ¿ں کے ہاتھوں قتل وغارت گری کو روکنے اور غضب کئے گئے مسلمانوں کے حقوق واپس دلانے کے لئے سا منے نہ آئے تو پھر کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ذمہ دار یورپی دنیا اور اِنسا نی حقوق( حتی کہ جانوروں کے حقوق )کے لئے بھی آوازیں بلند کرنے والی عالمی تنظیمیں بھی ہوںگیں جوابھی تک کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی قتل و غارت گری پراپنی آنکھیں اور زبان بند کئے خا موش تما شا ئی بنی ہوئی ہیں۔
پچھلے دِنوںبھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اردن کے شاہ عبداللہ کی موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے تنقیدبھرے انداز سے طنزاََ کہا ہے کہ” مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر ہو نے چاہئے“شاید اِنہیں یہ نہیں پتہ ہے کہ مسلمان توپیدا ہوتے ہی احکامات شریعت کا پابندہوجاتا ہے اوراِس کے ہاتھ میں قرآن و سنت کی تعلیمات آجاتی ہیں اِس پر مودی کا یہ کہنا اِن کے کم مشاہدے کی دلیل ہے جبکہ اِنہیںیہ بھی معلوم ہوناچا ہئے کہ دین اسلام اورمسلمان نہ پہلے کبھی دہشت گرد تھا آج نہ ہے اور آئندہ نہ ہوگا ،یہ بات اسلام اور مسلمانوں سے حسد و جلن اور کینہ کی عینک لگا کر دیکھنے والوں کو سمجھنا چاہئے مگر افسوس ہے کہ اَب سو چوہے کھا نے والی بلی بھی خود کو پاک پوترسمجھے تو یہ اور بات ہے مگر اسلام اورمسلمان کسی کے لئے باعث پریشا نی کبھی ہو ہی نہیں سکتے ہیں دنیا بھر میں دین اسلام کے ما ننے والوں کے ایک ہاتھ میں کل بھی قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹرتھا اور آج بھی اِن کے دونوں ہاتھوں میں قرآن ، کمپیوٹر، محبت ،اخوت مساوات اور عالمی امن و سلامتی کی تعلیمات ہیں ۔تفصیلات کے مطابق نئی دہلی میں اسلامی ورثہ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے موقع پر اردن کے شاہ عبداللہ کی موجودگی میں اپنے خطا ب کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے کہا کہ ” ہرمذہب انسا نی دوستی کا درس دیتا ہے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ کسی مذہب کے نہیں بلکہ سوچ کے خلاف ہے ، نوجوان اسلام کے اِنسا نی پہلو سے منسلک ہو کر جدیدعلم حاصل کریںاِن کا کہنا تھا کہ بھارت میں بہت سے مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں“ بیشک بھارت میں دیگر ادیان اور مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں مگر مودی جی ، یقینا بہت جلد ہندوستان کے نوجوان اسلام کے اِنسا نی پہلو سے منسلک ہو جا ئیں گے مگر آپ کو پھر بھی سب سے زیادہ خطرہ دینِ اسلام کے ما ننے والے مسلمانوں ہی سے ہوگا؟ایسا کیو ں ہے؟ اور آپ اِنہیںہی کیو ں ؟ ایک ہا تھ میں قرا ٓن اور دوسرے میںکمپیوٹر ہو نے کا مشورہ دے رہے ہیں، جناب مودی جی، دین اسلام کے ماننے والے مسلمان دنیا میںجہاں کہیں بھی آباد ہیں اِن کے ہاتھ میں قرآن اور کمپیوٹر ہی ہے شاید یہ آپ کو دِکھا ئی نہیں دے رہاہے اگر آپ کی نظریں آ پ کی سوچ کی طرح کمزور نہ ہوتیں توکبھی بھی مسلمانوں کو ایسا مشورہ نہیںدیتے ویسے بھلا مشورہ ہے آپ جو تنقیداورطنزمیںدے گئے ہیں۔
الحمداللہ،ازل سے دینِ اسلام اور مسلمان امن و سلامتی اور بھا ئی چارگی کے پیامبر ہیں اسلام نے مسلمانوں کو پیدائش سے لے کر قبر کی آغوش تک طہارت و نظافت ،صحت،لباس ، کھا نے پینے ، سو نے جاگنے،راستے،سفر، رنج و غم ، خوف وہراس، خوشی، حسن بندگی، مسجد ، دوسرے ادیان کی عبادت گاہوں، نماز ، نمازجنازہ، میت ، قبرستان، کسوف و خسوف،رمضان المبارک، روزے، زکوة اور صدقے، حج، اِنصاف، والدین سے سلوک، ازدواجی زندگی ،اولاد کی پرورش، دوستی، میزبانی ، مہمانی، مجلس ، سلام،عیادت، ملاقات، گفتگو، خط وکتابت، کاروبار، داعیانہ کردار ، دعوت و تبلیغ، نظم جماعت،قیادت، حساس عبدیت ، توبہ و استغفار، دُعااور سیاست و خارجہ پالیسی سمیت تمام شعبہ ہا ئے زندگی کے نگینے جیسے انمول آداب سیکھائے ہیں بھلااتنی خصوصیات کے حامل دینِ اسلام کے پیروکار مسلمان کیسے دہشت گرد ہوسکتے ہیں؟اِس پر بھی اگر مودی یا ٹرمپ جیسا کو ئی اور اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد گردا نے تو پھر اِس کی دماغی کیفیات اِسے پاگل ہو نے کا واضح اشارہ دے رہی ہیں ہا ں ہمیں اِس سے انکار نہیں ہے کہ اچھے بُرے ہر جگہہ ہو تے ہیں اگر کو ئی بھٹکا ہوا منحرف ہو کر کو ئی بُرا کربیٹھے یا بُرا ئی کی راہ پر چل نکلے تو سب کو بُرا نہیں کہا جاسکتا ہے تاہم آج دنیا کو دہشت گردی کا تعلق صرف دین اسلام کے پیروکاروں سے جوڑنا دنیا میں ہندووں ، یہودیوں اور عیسا ئیوں دہشت گردوں کی جا نب سے توجہ ہٹا نے کے مترادف ہے آج بھارتی وزیراعظم مودی پیسے لے کر اپنے انتہاپسند ہندووں ، انتہاپسند یہودیوں اور انتہاپسند عیسا ئیوں اورعیسا ئی دہشت گردوں کو بچا نے کے لئے دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں کے سر مار کر دیگر ادیان میں موجوددہشت گردوں کو بچا رہا ہے۔
جبکہ درحقیقت مسلمانوں کا دہشت گردی سے تعلق کبھی نہیںتھا کل بھی مسلمان دنیا کو امن اور آشتی کا گہوارہ بنا نے کے لئے پیش پیش تھا اور آج بھی ہے مسلمان کا کلیہ ہے کہ دہشت گرد کا تعلق کس بھی مذہب سے جوڑانہیں جاسکتا ہے کیو ں کہ مسلمان یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کل بھی دنیا (ماضی )میں جہاں کہیں دہشت گردی ہو ئی ،آج (حال میں )ہو رہی ہے اور جو آئندہ (مستقبل) میں ہوگی اِسے کرنے والے کا تعلق کسی بھی مذاہب سے نہیں وہ تو بس دہشت گرد ہے جو عالمِ انسا نیت کا دُشمن ہے اور دہشت گردوں کا تعلق ہی سِوائے دہشت گردی کے اِنسانیت سے قطعاَ تعلق نہیں ہوسکتا ہے بہرحال، سیمینار سے اردن کے شاہ عبداللہ نے بھی خطاب کیا تا ہم آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی سختی سے مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوری قوت سے دنیا کوباور کرنا لازمی ہے کہ اسلام و مسلمان سمیت دیگر ادیان کے ما ننے والوں کے لئے بھی سوشل میڈیا کو نفرت انگیز مواد پھیلانے کے لئے استعمال برداشت نہیں کیا جا ئے گا۔
لوگوں کو بھی چا ہئے کہ وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دنیا میں اُٹھنے والی نفرت انگیز آوازوں کو نفرت کی نگا ہ سے دیکھیں اور بندآنکھوں سے اسلام اور مسلما نوں کو دنیا کی دہشت گردی سے نتھی کرنے اورجوڑنے سے اجتناب برتیں اور غیر مسلم مسلمانوں کے قریب آئیں اور اِن سے اسلامی تعلیمات قرآن و سنت کی روشنی میںپیدائش سے لے کر فوت ہو نے تک کے آدابِ زندگی سیکھیں اور لائف گزارنے کے صاف و سادہ طور طریقے سیکھ کر دنیا کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا ئیں اور جا نیں کہ مسلمان نہ پہلے کبھی دہشت گرد تھا نہ آج ہے اور نہ ہی کبھی مستقبل میں مسلمان دہشت گرد ہوسکتا ہے تو مودی جی ، آپ کیسے؟ مسلما نوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ” مسلمانوں کے ایک ہاتھ میںقرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر ہونا چا ہئے“ ارے جناب مودی جی ، یہ دونوں تو مسلمانوں کے ہاتھوں میں پہلے ہی ہیں آپ چاہیں ہندوستان کے مسلمانوں پر زندگی جتنی بھی تنگ کر ڈالیں بس ذراسا انتظار کریں کہ عنقریب ہندوستان میں آباد ہندوو ¿ں اور دیگر ادیان کے ماننے والوں کے بھی ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر ہو گا“ ۔ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com