بھارت میں قوم پرستی کے فوائد مدھم، بنیادی مسائل دوبارہ اہم

India Election

India Election

ممبئی (جیوڈیسک) بھارت میں رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے کے مطابق جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں، پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں قوم پرست جذبات کے سیاسی فوائد مدھم پڑھتے جا رہے ہیں اور سماجی و اقتصادی مسائل دوبارہ اہم ہوتے جا رہے ہیں۔

پلوامہ حملے کے تناظر میں پاک بھارت کشیدگی کی حالیہ لہر اور اس دوران پائے جانے والے قوم پرست جذبات سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کو جو فائدہ پہنچا تھا، وہ اب ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انکشاف بھارت میں کرائے گئے رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے نتائج کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ سی ووٹر پولنگ ایجنسی کے مطابق پلوامہ حملے کے بعد دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور پر عوامی رائے یا تائید انتیس فیصد تھی جبکہ اب مارچ کے اواخر میں یہ پندرہ فیصد پر آن پہنچی ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نیم فوجی دستوں کے ایک قافلے پر چودہ فروری کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں چالیس سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی جنگجو تنظیم نے قبول کر لی تھی۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جس کے بعد دونوں روایتی حریف ممالک میں کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے پاکستانی حدود میں سرجیکل اسٹرائیک کر کے جیش محمد کے سینکڑوں ارکان کو ہلاک کرنے کا دعوی بھی کیا تھا جبکہ پاکستان نے جوابی کارروائی میں بھارت کا ایک فوجی طیارہ اپنی حدود میں مار گرایا اور ایک اور کو کشمیر میں گرانے کا دعوی کیا۔ ان حالات میں بھارتی عوام میں دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

سی ووٹر پولنگ ایجنسی کے مطابق سلامتی سے متعلق امور پر عوام کی رائے میں تبدیلی یا اس کی اہمیت میں کمی، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے پریشانی کا سبب ہے کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے، جس میں بی جے پی اپنی حریف جماعت کانگریس پر سبقت لیے ہوئے تھی۔ رائے عامہ کے جائزے میں شریک افراد کی رائے میں فضائی حملے اور قوم پرست جذبات نے عوام کی توجہ بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور دیگر کئی سماجی اور اقتصادی مسائل سے ہٹا دی تھی تاہم اب جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں، یہ مسائل دوبارہ عوام کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔

بھارت میں عام انتخابات گیارہ اپریل سے شروع ہو رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں نو سو ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان تیئس مئی کو متوقع ہے۔ نریندری مودی کی بی جی پی کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہ آئندہ بھی کولیشن حکومت قائم کر پائے گی۔