تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم پچھلے کئی دنوں اور ماہ و سال سے بھارت کی جانب سے پاکستان پر سخت جملوں، دھمکیوں اور گیدڑ بھبکیوں کی جو سردجنگ جاری ہے اَب اُمیدکی جاسکتی ہے کہ روس کے شہراوفامیں پاک بھارت وزرائے اعظم نوازشریف اور نریندرمودی کی ہونے والی ملاقات کے بعد بھارت کی جانب سے دانستہ طور پر پاکستان سے چھیڑی گئی سخت جملوںو گڑھے مردے اکھاڑنے اور بھارتیوں کی گیدڑ بھبکیوں اور دھمکیوں کی جاری جنگ رُک جائے گی اور نواز نریندر ملاقات کے نتائج خطے میں قیام امن کے لئے کسی نہ کسی حد تک ضرور مثبت ثابت ہوسکے گے مگر یہ سب کچھ تو اُسی وقت تک حقیقی رنگ میں سامنے آئے گاجب بھارت بھی پاکستان سے اپنے تعلقات کو بہتربنانے اور دوستی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام سمیت خطے کی ترقی اور خوشحالی اور قیام امن کے لئے بھی پوری طرح سے مخلص ہوتو روس کے شہر اوفا میںنوازمودی ملاقات کے بعد جاری کردہ پانچ نکاتی (سوائے چندایک کے )مشترکہ بیان بھی تاریخی قرار دیا جا سکتا ہے ورنہ یہ ایک بے مقصد کاغذ کے ٹکڑوں کے سواکچھ نہیں ہو گا۔
اگرچہ گزشتہ ہفتے جنوبی ایشیاکے دوہم پلہ اور اپنے اپنے لحاظ سے ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک( پاکستان اور بھارت)کے وزرائے اعظم نوازشریف اور نریندرمودی کی روسی شہراوفامیںملاقات ہوئی،میںیہاں یہ واضح کرتاچلوں کہ اِس ملاقات کا اہتمام خودبھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی خواہش کے اظہاربعد پاکستانی وزیراعظم نوازشریف سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کیا گیاتھا جس کی تیاری بھارتی وزیراعظم اور بھارتی وزارتِ خارجہ اور اِن کے معاونین تو پہلے ہی سے کرکے آئے تھے۔
جبکہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف جو اپنی ذات میں وزیراعظم بھی ہیں تو خود ہی وزارتِ خارجہ کااضافی قلمندان بھی رکھے ہوئے ہیں(جن کی رہنمائی دوبزرگ سرتاج عزیزاور فاطمی کررہے تھے) جنہوں نے بھارتی ہم منصب سے ملنے کے لئے انتہائی قیمتی سوٹ بوٹ زیب تن کیا اور بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے چلے گئے ،یعنی یہ کہ بس پاکستانی وزیراعظم کی تیاری اچھے اور قیمتی سوٹ بوٹ تک ہی محدودرہی اور وہ اِس کے علاوہ بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے کوئی ایسی خاصی اپنی تیاری اور شائد اپنا کوئی پائیدار ایجنڈا تیار نہ کرسکے جو بھارتی وزیراعظم سے ہونے والی اپنی ملاقات کے دوران اِن کے سامنے پیش کرتے تو بھارتی وزیراعظم کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا۔
Prime Minister Nawaz Sharif and Indian Premier Narendra Modi
دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا اور شسدر رہ گئے کہ جب پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کے لئے چلے اور ٹھومک ٹھومک اپنے پندرہ قدم بڑھاتے ہوئے نریندرمودی کی جانب بڑھ رہے تھے تواِسی دوران دنیابھرکے لوگوں نے اپنے اپنے ٹی وی اسکرینوں پر آن ائیر دیکھائے جانے والے مناظر میں یہ بھی دیکھاکہ بھارتی وزیراعظم جنہوں نے تمام سفارتی ومہمان نوازی اور اخلاقی طورطریقوں کی دھجیاں بکھیریں کہ وہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو ویلکم یا خوش آمدیدکہنے کے لئے ایک دوقدم بھی آگے نہیں بڑھے بلکہ دنیاوالوں نے دیکھااور یہ سمجھاکہ مودی جہاں کھڑے تھے وہیںکبھی ایک ٹانگ تو کبھی دوسری ٹانگ ہلاتے رہے یا کیمروں کے سامنے دنیادکھاوے کے خاطرکھڑے کھڑے ہی اپنی ٹانگوں کو اِدھراُدھرکرتے رہے تاکہ دنیاکے سامنے یہ تاثرجائے کہ اُنہوں نے نوازشریف کا کھڑے ہوکراور دوقدم آگے بڑھ کر استقبال کیاہے جبکہ ایسانہیںتھاجیساوہ دنیاکو دیکھانا چاہتے تھے بھارتی وزیراعظم کی اِس حرکت کے دوران اِن کے چہرے پر بادشاہانہ مسکراہٹ تھی جبکہ وزیراعظم پاکستان نوازشریف اچھے اور قیمتی سوٹ بوٹ پہن کر بھی ذراذراسے سہمے ہوئے لگ رہے تھے بھارتی وزیراعظم بادشاہ اور پاکستانی وزیراعظم خطے میں قیام امن سمیت دیگرمعاملات میں اپنے کئی حوالوں سے مضبوط موقف کے باوجود بھی ڈرے ڈرے سے نظرآرہے تھے، جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم پاکستانی وزیراعظم کی 30منٹ کی ملاقات کو جان بوجھ کر ایک گھنٹے تک کھینچ لے گئے اور پاکستانی وزیراعظم پر اپناایساراعب اور دبدباڈالاکہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف مسئلہ کشمیر سمیت بلوچستان اور پاکستان کے شہر کراچی اور دیگر شہروں میں بھارتی مداخلت جیسے اپنے درست اور جائز معاملات اور نکات کو بھی بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے سامنے کھل کر پیش کرنابھول گئے، اُلٹاوہ اپنی بغیرکچھ کہے سُنے ، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ہاںمیں ہاں ہی ملاتے رہے اور اِس کے سواوزیراعظم نوازشریف کچھ نہ کرسکے۔
ایسالگتاہے کہ بظاہرتو اِس ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے وزیراعظم نوازشریف کے جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کو جڑسے ختم کرنے کے لئے باہمی تعاون اور مدد کے لئے پیش کردہ ایک دوموقف کو تسلیم توضرورکرلیاہے اور اُنہوں نے جنوبی ایشیاسے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کرتے ہوئے خطے کو انسانی حقوق کی پاسداری اور دونوں ممالک کے عوام کی خوشحالی اور خطے کی تعمیروترقی کے خاطر جنوبی ایشیاسے دہشت گردی کے خاتمے کی حامی بھی بھرلی ہے اور اِس کابھی اقرارکرلیاہے کہ پاک بھارت کے آگے بڑھنے کا واحدراستہ جامع مذاکرات ہیں اور اِس موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بات بھی مان لی ہے کہ دہشت گردی پر بات چیت کے لئے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیردہلی میں ملاقات کریں گے،جہاںاِس ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اِس نقطے پرحامی بھری تو وہیں اُنہوں نے برملااِس کو بھی تسلیم کیاہے کہ خطے میں امن اور ترقی ، جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے تعاون، بھارت کے ڈی جی بی ایس ایف، ڈی جی پاکستان رینجرز اور ڈی جی ایم اووز کی ملاقاتوں،پندرہ روزمیںایک دوسرے کے ماہی گیروں کو کشتیوںسمیت رہا کرنے ،ایک دوسرے کے شہریوں کو مذہبی مقامات کی زیارت کے لئے تعاون اور ویزے جاری کرنے اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے انتہائی چالاکی سے لگے ہاتھوں وہی مرغے کی ایک ٹانگ والی ضد بھی ٹھونس دی اور پاکستانی وزیراعظم نوازشریف پر دباو ¿ ڈال کرمبنی حملوں کے کیس کو تیزرفتاری سے حل کرنے کی حامی بھرالی“ اور آوازوں کے نمونے سمیت اضافی معلومات دینے کا فیصلہ کرنے سمیت اگلے سال سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے دورہ پاکستان کی دعوت بھی قبول کرلی ہے۔
Zaki-ur-Rehman Lakhvi
بھارتی میڈیا کے مطابق جہاں اتناکچھ ہواتو وہیں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستانی معصوم وزیراعظم نوازشریف کو اکیلاپاکر تین انتہائی اہم نکات بھی پاکستانی وزیراعظم کے سامنے پھیلاکررکھ دیئے اور کہا کہ” جناب ہماری آ پ کی یہ ساری باتیں اپنی جگہہ ٹھیک ہیںمگرنوازجی…! ذکی الرحمن لکھوی کی رہائی پر ہمارے شدیدتحفظات ہیں،یہ کسی طوربھی قابلِ قبول نہیں،اور مودی نے سرحدپردراندازی کے واقعات اور پاک چین اقتصادی راہداری بھی اپنے تحفظات کھل کرسامنے رکھ دیئے جس پر پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی تحفظات اور اعتراضات یکسر مسترکردیئے اور نوازشریف نے انتہائی معصومانہ انداز سے دبے دبے لفظوں اور جملوں کے ساتھ مسئلہ کشمیرسمیت بھارتی مداخلت کا معاملہ تواُٹھایا مگر شائد ایسالگاکہ جیسے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی جو بادشاہانہ انداز سے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کے سامنے سینہ پھولاکر اور گردن تان کربیٹھے تھے اُنہوں نے اپنے سامنے بیٹھے محکوم پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی سُنی ان سُنی کردی اور نوازشریف خاموش ہوکربیٹھ گئے جبکہ اس حوالے سے یہ بھی اطلاع ہے کہ بھارتی میڈیاکی رپورٹوں کے برعکس مشترکہ اعلامیئے میںمسئلہ کشمیر کا ذکرتک نہیں کیا گیا۔
جبکہ روسی شہر اوفامیں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نوازشریف اور نریندرمودی کی ہونے والی ملاقات پر ہماری اپوزیشن سمیت کشمیری قیادت کا بھی یہی قوی خیال ہے کہ ”نوازشریف نے نریندرمودی کی جانب اپنے قدم بڑھانے سے لے کر اِن سے مصافحہ کرنے تک اپنی باڈی لینگوج سے خود کو پکاخوشامدی اور نریندرکا غلام ظاہر کیاہے اور اِس دوران بھارتی (چائے بیچنے والا)وزیراعظم نریندرمودی کا جیساحقارت آمیزرویہ تھاوہ بھی کسی طرح قابل ِ قبول نہیں ہے،اور اِس پر یہ اور افسوس ناک ہواکہ ” وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے کشمیرسمیت بھارتی مداخلت پر لب کشائی نہ کرنااور بھارتی وزیراعظم کے سامنے اپنے جائزاور درست موقف کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہنااِس ساری ملاقات کو بے معنی کردیتاہے“ اِس ساری ملاقات کے ڈرامے میںبھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا رویہ ضرورت سے زیادہ ظالمانہ جبکہ پاکستانی وزیراعظم کی باڈی لینگوج غلام ابن غلام اور انتہائی فقیرانہ اور التجایہ سالگا… ایسے میں اَب کیا وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی کابینہ کے اراکین پاکستانی اور کشمیری عوام کو یہ بتاسکتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے ساری ملاقات میں چپ کا روزہ کیوں رکھاہواتھا..؟؟اُنہوں نے بھارتی عیارومکاراورچالاک وزیراعظم نریندرمودی کے سامنے ڈرے بغیر کشمیراور بھارتی مداخلت پر اپناجائزہ اور درست موقف کا کھل کر اظہار کیوں نہ کیا۔
آج ساری پاکستانی قوم اور کشمیری عوام وزیراعظم نوازشریف کی کشمیرسمیت بھارتی مداخلت پرروارکھی گئی بے حسی اور بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے جانے والے پندرہ قدموں سے لے کر ساٹھ منٹ تک خوشامدانہ اندازسے ڈرے سہمے بیٹھے رہنے والے ہر ہر عمل پر یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے نہ صرف بھارت میں اپنے کاروبارکو مستحکم کرنے والے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی سُبکی ہوئی ہے بلکہ ساری دنیامیں پاکستانی عوام اور کشمیریوں کی بھی ذلت اور رسوائی ہوئی ہے اور دنیابھر میں پاکستانیوںاور کشمیریوں کا غلط موقف گیاہے کہ جیسے پاکستانی اور کشمیری اپنے موقف میں کمزروہیںتب ہی نوازشریف نے ایسے کسی موقف کا اظہارنہیں کیاجس سے اِن کی مودی ملاقات کا تاثرغلط ہوتااور نریندرمودی ناراض ہوجاتے …آج وزیراعظم نوازشریف کا خوشامدانہ رویہ دیکھ کر قوم یہ سوچنے سمجھنے اوریہ کہنے پر بھی مجبورہوگئی ہے کہ اِس سے تو اچھاتھاکہ وزیراعظم نوازشریف ملاقات سے ہی انکارکردیتے اِن کی اِتنی سُبکی تونہ ہوتی جتنی کہ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہو گئی ہے۔