بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ متنازعہ زرعی قوانین پر ایوان بالا راجیہ سبھا میں اتوار کو زبردست ہنگامہ کے ایک دن بعد اپوزیشن کے آٹھ اراکین کوآج ایوان سے ایک ہفتے کے لیے معطل کردیا گیا۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیا نائیڈو نے آج ایوان کی کارروائی شروع ہوتے ہی کہا کہ اتوار کا دن راجیہ سبھا کے لیے انتہائی برا دن تھا اور اپوزیشن اراکین پارلیمان کے رویے کی مذمت کی۔
پارلیمانی امور کے نائب وزیر وی مرلی دھرن نے اتوار کے روز کے واقعات کے حوالے سے اپوزیشن کے آٹھ اراکین کے ناموں کی نشاندہی کی جس کے بعد وینکیا نائیڈو نے انہیں معطل کرنے کا فیصلہ سنایا۔
جن اراکین کو معطل کیا گیا ہے ان میں کانگریس پارٹی کے راجیو ساٹو، ریپون بورا اور سید نصیر حسین، ترنمول کانگریس کے ڈیرک اوبرائن اور ڈولا سین، بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کے کے کے راگیش اور ای کریم اور عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ شامل ہیں۔
وینکیا نائیڈو نے ان اراکین کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”کچھ اراکین چیئرمین کی نشست کے پاس آگئے تھے اور انہوں نے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش کو جسمانی طور پر دھمکایا، انہیں کام کرنے سے روکا… یہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ میں ان اراکین کو اپنا احتساب کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔”
نائیڈو نے ہری ونش کے خلاف اپوزیشن کے اراکین کی طرف سے عدم اعتماد کی تجویز کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ ایوان کے ضابطے نائب چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز کی اجازت نہیں دیتے۔
راجیہ سبھا کے چیئرمین نے اس کے بعد معطل کیے گئے اراکین کے نام پکارنے شروع کیے۔ انہوں نے کہا”میں مسٹر ڈیرک او برائن کا نام لے رہا ہوں۔ برائے مہربانی وہ ایوان سے باہر چلے جائیں۔”
لیکن اراکین نے ان کی بات ان سنی کردی۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ ایوان بالا کے نائب چیئرمین ہری ونش نے حکومت کی ایما پر دو اہم زرعی قوانین پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے ووٹنگ کرانے کے مطالبے کو مسترد کردیا اور انہیں صوتی ووٹوں سے منظور کرا دیا۔ اس پوری کارروائی کے دوران ایوان میں ایک بھی صحافی موجود نہیں تھا اور ایوان کی کارروائی براہ راست نشر کرنے والی ٹی وی کی آڈیو بھی بند کردی گئی تھی۔
بعض میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن نے پہلے ہری ونش سے دونوں قوانین کو ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا جسے مسترد کردیے جانے کے بعد کارروائی کو پیر تک ملتوی کرنے کی مانگ کی تھی، لیکن جب نائب چیئرمین نے اپوزیشن کا کوئی بھی مطالبہ منظور نہیں کیا تو اراکین مخالفت پر اتر آئے۔ انہیں ہری ونش کے سامنے لگے ہوئے مائک کو توڑتے ہوئے اور ایوان کے ضابطے کی کتاب کو پھاڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
ڈیرک او برائن نے پارلیمنٹ کے اندر سے بھیجے گئے ایک ویڈیو پیغام میں ایوان کے نائب چیئرمین کے اقدام کو ‘جمہوریت کا قتل‘ قرار دیا۔
اپوزیشن راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا رکن منوج جھا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”یہ بھارتی پارلیمان کی تاریخ کا سب سے افسوس ناک دن تھا۔ جب اتنے اہم قوانین کو شور و غل کے درمیان اور ووٹنگ کرانے کا مطالبہ کرنے والے اراکین کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے منظور کرا لیا گیا۔”
منوج جھا نے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش کے رویے پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہا”ایک بار جب آپ چیئرمین کی نششت پر بیٹھ جاتے ہیں تو اس کے بعد کسی دوسرے کی طرف سے دی گئی ہدایت آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔”
متنازعہ قانون حکومت کے مطابق نئے قوانین کا مقصد زرعی شعبے میں اصلاحات ہیں اور یہ کسانوں کو اپنی مصنوعات کی پسند کے مطابق مارکیٹنگ کی اجازت دیتے ہیں لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ قوانین بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کا سبب بنیں گے۔
وزیر اعظم مود ی نے ان قوانین کی منظوری پر کسانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے ‘اسے بھارت کی زرعی تاریخ کا ایک اہم دن قرار دیا اور کہا کہ اس سے کروڑوں کسان خود کفیل بنیں گے اور مستقبل کی ٹیکنالوجی تک کسانوں کی رسائی آسان ہوجائے گی۔‘
تاہم اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی پر ‘بھارتی کسانوں کو سرمایہ داروں کا غلام بنانے‘ کا الزام لگایا۔
حکومت کے بعض اتحادیوں نے بھی انہیں ‘کسان دشمن‘ قرار دیا۔ ان قوانین کے خلاف احتجاج کے طورپر بی جے پی کی حلیف جماعت شرومنی اکالی دل کی رکن اور مرکزی وزیر ہرسمرت کور نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
کسانوں کی متعدد تنظیموں نے بھی ان قوانین کی سخت مخالفت کی ہے اوراس کے خلاف بالخصوص پنجاب اور ہریانہ میں زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔