28 فروری کے دن فورٹ عباس میں پاک بھارت سرحد روانہ ہوئے تو چند ہی کلومیٹر کے بعد پاک رینجرز کی عجب خان پوسٹ آ گئی جہاں پاکستانی فورسز کے جوان جان ہتھیلی پر رکھے دشمن بھارت کے خلاف سیاچن سے صحرائوں اور سمندروں تک ہماری حفاظت کیلئے سینہ سپر ہیں۔ پوسٹ کا نام ”عجب خان” سے منسوب دیکھا تو خیال آیا کہ یہ کہیں اس عجب خان آفریدی کے نام سے تو منسوب نہیں جن کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے تھا اور انہوں نے 1920ء کی دہائی میں طاقتور حکمران انگریزوں کو اپنے چند گھڑ سوار ساتھیوں کے ہمراہ جہادی یلغاروں میں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ عجب خان آفریدی کا ذکر کبھی ہمارے نصاب کی کتابوں کا حصہ توتھا لیکن اب یہ قصۂ پارینہ بن چکا ہے لیکن جب پوسٹ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک دوسرے عجب خان کی ہی داستان ایک دیوار پہ رقم تھی۔ یہ وہ عجب خان تھے جنہوں نے اپنی پاک سرزمین کا بھارتی حملے کے دوران دفاع کرتے ہوئے اسی مقام پر جام شہادت نوش کیا تھا اور دشمن کے حملے کو ناکام بنایا تھا۔
ہماری حفاظت پر بیٹھے پاک رینجرز کے جوانوں اور افسروں سے مل کر بے حد خوشی ہوئی تو دوستوں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو قریب سے دشمن کے علاقے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ اس طرف پہنچ کر جب بھارت کی جانب نظر دوڑائی تو اس طرف خوف ہی خوف محسوس ہوا۔ ابھی اندھیرا چھانا شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارت کی جانب سے ساری سرحد انتہائی تیز برقی قمقموں سے روشن ہو گئی۔ سرحد پر بھارت کی طرف سے نصب خاردار تاروں کی کئی دیواریں نظر آنے لگیں۔ بھارت کی جانب دفاعی حصار میں گھنے درختوں کی دیواریں کھڑی تھیں۔ جیپوں پر پٹرولنگ اور فوج کا پیدل مارچ بھی دکھائی دے رہا تھا تو نہ نظر آنے والے کیمرے، سنسرز، بارودی سرنگیں اور خلائی سیارے بھی یہاں نظریں گاڑے ہوئے تھے۔ ”اف میرے خدا! بھارت اس قدر خوفزدہ…” ساتھ ہی اپنے حفاظتی انتظامات کا خیال آیا تو پاک رینجرز کے جوان کے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے: ”ہمارا دفاع تو ہمارا رب ہی کرتا ہے۔” سرحد کے اس پار دیکھتے ہوئے خیالات کا دھارا 12سال پیچھے کی طرف مڑ گیا جب خوفزدہ بھارت کی ریاست گجرات میں 28 فروری 2002ء کو مسلمانوں کا وہ خوفناک قتل عام شروع ہوا تھا جس کے ہزارہا زخم آج بھی تازہ ہیں۔
وہ 27 فروری 2002ء کا دن تھا۔ بابری مسجد کی جگہ بنائے گئے مندر میں پوجا پاٹ کر کے واپس آنے والے ہندو یاتریوں کی سابرمتی ٹرین جب گجرات کے گودھرا ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو اس میں پراسرار آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس آگ کا نشانہ بن کر 58 یاتری ہلاک ہو گئے۔ خبر پھیلنے کی دیر تھی کہ وشوا ہندو پریشد نے اس کا الزام مسلمانوں پر عائد کر کے اگلے روز ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اگلا دن 28 فروری کا تھا… وہ دن کہ جب سینکڑوں ہزاروں ہندو مسلمانوں پر تلواریں، بھالے، ڈنڈے، درانتیاں اور سریے لے کر چڑھ دوڑے تھے۔
ان کے پاس پٹرول سے بھرے کین بھی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے احمد آباد کی اس گلبرگ سوسائٹی کا رخ کیا جہاں سب سے متمول اور خوشحال مسلمان رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے گھر کا رخ کیا۔ ہنگامہ اور شور سن کر احسان جعفری باہر نکلے تو انہوں نے ہجوم کے تیور دیکھتے ہی اندازہ کر لیا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے ہجوم سے صرف اتنی اپیل کی کہ انہیں بے شک قتل کر دیا جائے لیکن ان کی عورتوں اور بچوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ حملہ آور ہندوئوں نے احسان جعفری کو حکم دیا کہ وہ اپنے سارے کپڑے اتار کر الف ننگا گلی میں دوڑنا شروع کرے۔ معمولی تاخیر پر ہندوئوں نے ان کا سر تلوار کے وار سے کاٹ ڈالا اور پھر ان کے تڑپتے لاشے کو جلتی آگ میں ڈال دیا۔ چند ہی لمحوں بعد ساری گلبرگ سوسائٹی شعلوں میں گھر چکی تھی اور باہر نکلنے والی مسلم عورتیں جنہیں شاید ننگے سر آسمان نے بھی نہیں دیکھا تھا۔
Gujarat Riots
ان ہندو درندوں کے ہتھے چڑھ چکی تھیں، جن کی سرعام اجتماعی طور پر عزتیں لوٹی جاتیں پھر قتل کر دیا جاتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے احمد آباد اور سارے گجرات میں مسلمان نشانے پر تھے۔ جیسے جیسے خبریں پھیل رہی تھیں، گجرات کی آس پاس کی ریاستوں سے وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، شیو سینا کے علاوہ بی جے پی کے ہزارہا کارکن ہر طرح کا سامان قتل و غارت گری لے کر تیزی سے پہنچ رہے تھے۔ صرف اسی 28 فروری کے دن پولیس کی بندوقوں نے آگ اگلی تو جانیں بچانے کیلئے بھاگنے والے 40 مسلمان سرعام قتل کر دیئے گئے۔
یہاں ایک دو دن نہیں مارچ کا پورا مہینہ لاکھوں ہندو دہشت گرد پولیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر وہ قیامت ڈھاتے رہے کہ جس کی سختیاں آج بھی 50 ہزار سے زائد مسلمان اپنے علاقوں اور گھروں سے دور بے خانماں برداشت کر رہے ہیں۔ یہ مسلمان ایسی پناہ گزین بستیوں میں مقیم ہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی نہیں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح رینگ رینگ کر زندگی گزارنے والے ان لوگوں کے بچے تعلیم کے حصول تک سے محروم ہیں۔ ہزاروں دیگر املاک کے ساتھ سب سے پہلے جلنے والی گلبرگ سوسائٹی کے سینکڑوں عالیشان مکانات 12 سال پہلے کی لگی آگ میں جھلسے ہوئے سیاہی سے بھرے ہیں۔ یہاں 12 سال سے چمگادڑیں بسیرا کئے ہوئے ہیں اور انسان یہاں سے دور بھاگتے ہیں۔
فسادات کے بعد عالمی میڈیا نے بھی تسلیم کیا تھا کہ یہاں 500 سے زائد مساجد جلائی اور گرائی گئی تھیں۔ مسلمانوں کے ایک لاکھ سے زائد گھر، 11 سو سے زائد ہوٹل، 25 ہزار املاک جلائی گئی تھیں۔ یہاں کے مسلمانوںنے کچھ عرصہ پہلے عالمی میڈیا کے سامنے اپنے حالات کچھ یوں بیان کئے تھے۔ ایک خاتون جن کا نام فرزانہ ہے، نے بتایا کہ دن میں ہم لوگ آبائی زمینوں پر اپنا کام کر کے شام میں یہاں سے گودھرا چلے جائیں گے۔ یہاں بہت ڈر لگتا ہے۔ فرزانہ سے کچھ ہی دور ایک اور مسلمان شیخ عبدالرحیم ایک چارپائی پر بیٹھے تھے اور اپنے کھیت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ فسادات میں ان کے تین بیٹے مارے گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں، ہمارا تو سب کچھ برباد ہو گیا۔ اس چھوٹے سے گائوں میں مسلمانوں کی چھوٹی سی آبادی تھی۔ اب سبھی نے اپنی زمنیں ہندوئوں کو ٹھیکے پر دے دی ہیں۔ یہاں کے رہنے والے ایک اور مسلمان ہارون بھائی جیسے سبھی لوگ یہاں یہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک سیاسی سازش کے تحت تباہ کیا گیا۔ ہمیں ڈر لگتا ہے اور گھبراہٹ ہوتی ہے، ان لوگوں (ہندوئوں)کا بھروسہ نہیں ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار سوشیل جھا نے ہی ان فسادات کے دس سال مکمل ہونے پر علاقے کا کچھ یوں نقشہ بیان کیا تھا۔گودھرا بٹا ہوا شہر ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے علاقے واضح طور پر بٹے ہوئے ہیں۔ میرے ڈرائیور کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ میں ایک صحافی ہوں اور مسلمانوں سے ملنا چاہتا ہوں تو اس کا پہلا سوال تھا ”آپ ہندو ہیں یا مسلمان؟” دوسرا سوال تھا ‘ آپ ڈبیشور مہاراج کو بھی دیکھیں گے؟ ڈبیشور مہاراج سے اس کی مراد سابرمتی ایکسپریس کا وہ تھا ڈبا جس کو آگ لگی تھی ۔میں نے ڈرائیور سے کہا کہ میں پہلے لوگوں سے ملوں گا۔
علاقے میں داخل ہوتے ہی ڈرائیور کے دو الفاظ نے بہت کچھ کہہ دیا۔ادھر ہندوستان اور آگے چھوٹا کراچی ہے یعنی ”مسلمانوں کا علاقہ” بھارت کا انصاف بھی دیکھئے کہ ان فسادات کے بعد سابرمتی ٹرین جلانے کے الزام میں 93 مسلمان گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ اگرچہ کہ ہر طرح سے ثابت بھی ہو گیا کہ ٹرین کو آگ اندر رکھے کیمیکل سے لگی تھی پھر بھی یہ مسلمان سالہاسال جیل میں رہے۔ بلکہ کئی ابھی تک جیل میں ہیں اور کئی ایک کی لاشیں بھی آ چکی ہیں۔ دوسری طرف وحشت ناک انداز میں 25 ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل کے جرم میں صرف 90 ہندو گرفتار ہوئے جن میں 63 کو بعد میں بری کر کے انہیں قید میں رہنے کا معاوضہ بھی دے دیا گیا۔
آج 12 سال بعد ہزاروں مسلمانوں کو اپنی نگرانی میں جلانے، لاکھوں کو خانہ برباد کرنے والے نریندر مودی کو بھارت کا وزیراعظم بنانے کی تیاریاں ہیں تو مسلمانوں کو محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے مختلف پارٹیوں کی جانب سے لالچ دیئے جا رہے ہیں۔ شام ڈھل چکی تھی۔سرحد سے واپسی کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے پاکستان کی قدروقیمت کا احساس بھی جاگزیں ہو رہا تھا۔
بھارت کے شہر ممبئی میں مسلمانوں کا علاقہ ”چھوٹا پاکستان” ہے تو گجرات میں چھوٹا کراچی… دو قومی نظریہ مٹانے کی سعی کرنے والے اس سے ٹکراتے ٹکراتے خود کو لہولہان کرتے جانوں سے جا رہے ہیں لیکن نظریہ ہر روز پہلے سے مضبوط تر ہے۔