متشد بھارت کا روشن چہرہ

India

India

تحریر : میر افسرامان، کالمسٹ
ہم نے اپنے گزشتہ کالموں میں بھارت میں جاری پاکستان خلاف مہم کا کچھ احاطہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان خلاف مہم میں بھارت سرکار کے دہشت گرد وزیر اعظم نریدر مودی، اس کے وزیر داخلہ، شرپسند مذہبی رہنما،ا س کا میڈیا، اور کچھ ضمیر فروش سیکولر مسلمانوںنے اسلام کے خلاف نظریاتی اور پاکستان کے خلاف جنگ کا سا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔ اب اس کالم میں بھارت کے امن پسند لوگوں کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔بھارت کے مسلمان بھارت میں مشاعرے خوب منعقد کرتے ہیں۔ جن میں شاعر اپنا اپنا تازہ کلام پیش کرتے ہیں۔

شاعر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں اور اپنے ہزار سالہ ہندوستان کی شاندار تاریخ اور اس میں ہندوئوں کے ساتھ برتی گئی بھائی چارے اور ان کے معاشی، تہذیبی ،ثقافتی اور مذہبی رواداری کا ذکر کرتے ہیں۔ہم بھی اپنے کالموں میں اس باتوں کو اُجاگر کرتے رہے ہیں تاکہ بھارت میں جاری مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی میں کچھ کمی واقعہ ہو۔ہم نے اپنے کالموں میں لکھا کہ بھارت کے حکمرانوں تم نے تو اپنی آزادی کے ستر سالوں کے اندر اپنی مسلم اقلیت کا جیناحرام کر دیا ہے۔ وہ بھارت میں ایک اور پاکستان بنانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں نے تو تم پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ اس ہزار سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ رواداری برتی۔ ان کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیا جس سے عام ہندو مطمئن تھے۔

مغل سلطنت کے بانی بادشاہ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندوئوں کے بارے نصیحت کی تھی کہ ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا ۔ شاید ہی وجہ تھی کہ اس کے بیٹے مغل اعظم اکبر کے دور میں تو ہنددئوں سے اس حد تک رعایت برتی گئی کہ اکبر نے نیا مذہب ہی ایجادد کر ڈالا۔ مگر متعصب ہندو حکمرانوں نے مغل بادشاہ بابرکی بنائی ہوئی یادگار باری مسجد کو شہید کر دیا۔ مغل شہنشاہ جہانگیر نے رعایا کے ساتھ عدل کی گھنٹی کا انتظام کیا تھا۔ مگرمتعصب ہنددئوں نے اس کے شاہکار تاج محل کے خلاف اب مہم شروع کر دی ہے۔ شیر شاہ سوری نے کلکتہ سے پشاور تک شاہراہ (جی ٹی روڈ) پر جہاں مسلمانوں کے لیے پانی اور آرام گائیں بنائی تھی ان کے ساتھ ساتھ ہنددئوں کے لیے بھی علیحدہ پانی اور آرام گائوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ مسلمان حکمرانوںنے ہنددئوں کے مذہبی معاملات میں کبھی بھی دخل نہیں دیا۔ بلکہ ان کو چین اورراحت دی ۔ مسلمان بزرگوں کے انسان دوست رویہ اور روحانی فیض کی وجہ سے کروڑوں ہندو اسلام کے پرامن مذہب میں داخل ہوئے۔ہمیں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے زمرے میں ایک تحقیق کی گئی تھی یاد آئی۔ وہ اس طرح کہ تقسیم ہندوستان ایک سروے کیا گیا تھا۔ جس میںتیس کروڑ ہنددئوں میں سے کسی نے بتایا کہ ہم دہلی کے مسلمان بزرگ، کسی نے کہا کہ میں اجمیر کے برزگ اور کسی نے کہا کہ میں ہم سیون کے برزگ سے بیعت ہیں ہوں اور ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ ہندو دوست ہیں وہ بھی ہمارے سامنے کچھ ایسی ہی باتوں کااقرار کرتے ہیں۔

ایک ہندو دوست جو وکیل ہیںنے بتایا کہ ہم ہندومرودں کو جلاتے نہیں بلکہ مسلمانوں کی طرح احترام سے قبروں میں دفناتے ہیں۔بھارت کے راجستان کے ہندوئوں کے متعلق کہیں پڑھ تھا کہ وہ مسلمانوں کی کافی رسم و رواج پر عمل کرتے ہیں۔ یہ تو سب مسلمان مذہبی پیشوائوں کی پر امن تبلیغ اور انسانیت سے پیار اور اسلام کی پر امن روایات کو بیان کرنے سے ہوا۔ اے کاش کہ برصغیر پر ہزار سالہ حکمرانی کرنے والے حکمران بھی اسلام کو پھیلانے میں مدد کرتے تو آج ساراصغیر پر امن اسلام کے دائرے سے منسلک ہو چکا ہوتا۔ ہم بھارت میں منعقد ہونے والے مشاہروں کی بات کر رہے تھے۔ جیو ٹی وی پروگرام جرگہ میںبھارت کی برہمن خاندان کی شاعرہ لتا حیا صاحبہ کے انٹرویو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہ ایک ہندو خاندان کا فرد ہونے کے باوجود مسلمانوں پر مودی سرکار کے روا رکھے گئے مظالم کے خلاف اپنے شعروں میں اعلانیہ بغیر خوف خطر آواز اُٹھاتی ہیں۔ وہ بھارت کے مشہور معروف شخص روشن صاحب کے مشاہرے میں کئی سالوں سے شرکت کر رہی ہیں۔

مشاہروں میں اپنے شعروں کے ذریعے ظلم کے خلاف بولتیں ہیں۔ اپنے ایک شعر میں بھارت میں جاری ہندی اردو زبان کے مسئلہ پر کہتی ہیں کہ اگرتمھاری ہندی اُتم ہے۔ تو میری اردو اعلیٰ ہے۔ بھارت کی قوم پرست ٧٠ سالہ دور حکمرانی کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہندستان پر ہزار سالہ حکمرانی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے شعر میں بیان کرتی ہیں کہ اگر بھارت تمھارا ہے تو ہندستان ہمارا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی طرف کہ اگر مراعات دے کر ہنددئوںمال دار بنا دیا اور مسلمانوں پر نوکریوں پر پابندیوں اور اور تشدد کرکے ان کوغریب بنا دیا کو شعر کی زبان میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر گلستان تمھارا ہے۔ تو ریگستان ہمارا ہے۔ مودی کے گجرات میں مسلمانوں پر ظلم کی بھی اپنے شعروں میں رد کرتی ہو ئی نظر آتیں ہیں۔ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ہندی کی ایک بہن ہے جس کا نام اُردو ہے۔ اس طرح ایک ہندو سادھو معاشرے میں مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسے پیغمبرۖ مسلمانوں کے ہیں وہ ہندوئوں کے لیے بھی پیغمبر ۖہیں۔ اس لیے کہ اللہ نے انہیں رحمت العا لمین بنا کر ساری دنیا کے لیے پیغمبرۖ بنایا ہے اس لیے وہ صرف مسلمانوں کے پیغمبرۖ بلکہ ہندوئوں کے بھی پیغمبر ۖہیں۔

صاحبو!تاریخی طور پر بین الاقوامی اصولوں کے تحت پر امن اور جمہوری جدوجہد پر برصغیر کی تقسیم کو اگر بھارت کے حکمران اس کی روح کے مطابق عمل کرتے ۔ کشمیر کو کشمیریوں کی مسلم کانگریس کی الحاق پاکستان کی قرارد داد کے مطابق پاکستان سے ملے دیتے اور راجہ ہری سنکھ کی جعلی قراراداد کو بنیاد نہ بناتے آج بھارت اور پاکستان اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ رہے ہوتے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاک بھارت جنگیں نہ ہوتیں۔بھارت نے تقسیم کے فارمولے پر کشمیر کو پاکستان سے نہ ملنے دیا۔ اس کے ساتھ پاکستان کو دل سے نہیں مانا۔ جنگ کے ذریعے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش بنا دیا۔ اب باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ بلوچستان،گلگت بلتستان اور کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے پاکستان میں خود اور قوم پرست افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس سے امن پسند قوتوں کے کمزور کرتا ہے۔بھارت کو چاہیے کہ کشمیریوں کو اپنے وعدے جو اس نے اقوام متحدہ میں کیا تھااستصواب کی اجازت دے کر پاکستان کے ساتھ پرامن رہنے کی پالیسی اختیار کرے۔ بھارت اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو کر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں یہی متشدد بھارت کا روشن چہرا ہو گا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ