تحریر: محمد اشفاق راجا وزارتِ خارجہ کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمبا والے نے دفتر خارجہ میں سپیشل سیکرٹری برائے خارجہ امور وحیدالحسن سے ملاقات کی اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو لکھے گئے خط کا تحریری جواب پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں جموں و کشمیر پر مذاکرات نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، اس لیے پاکستان سے صرف دہشتگردی پر بات چیت ہو گی۔
نیز سرحد پار دراندازی کا معاملہ بھی مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ حکومتی ذرائع نے مذاکراتی عمل کی بحالی میں دلچسپی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ باہمی مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں اور اگر بھارت اپنے ایجنڈا کے تحت بات چیت میں دلچسپی رکھتا ہے تو ہم بھی اپنے ایجنڈے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھارت کی مذاکرات کے لیے مشروط آمادگی کو حوصلہ افزا پیش رفت نہیں کہا جا سکتا اور لگتا ہے کہ بھارتی قیادت حقائق سے نظریں چرا رہی ہے’ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیر جیسا کور ایشو تو ایک طرف رکھ دیا جائے اور صرف دہشت گردی پر بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز سجائی جائے۔
kashmir terrorism
پہلی بات یہ ہے کہ بھارت اگر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دہشت گردی قرار دے رہا ہے تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ماہ رواں کے آغاز میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے متنازع بیانات کے جواب میں ہی واضح کر دیا تھا کہ یہ تحریک دہشت گردی نہیں بلکہ بھارتی استبداد کے خلاف کشمیریوں کی جائز اور صائب تگ و دو ہے’ جسے بھارت اپنی فوج اور کالے قوانین کے ذریعے دبا نہیں سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات کس قدر گمبھیر ہو چکے ہیں’ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی فورسز نے بدھ کے روز حریت رہنماؤں کی کال پر سری نگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کرنے والے افراد پر تشدد کی انتہا کر دی، تمام راستوں کی ناکہ بندی کی گئی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔
سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ سے روکے جانے پر کشمیریوں نے سری نگر کے مختلف علاقوں میں دھرنا دیا۔ فوج کے قافلے اور کیمپ پر حملوں میں 3 فوجی اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ برہان مظفر وانی کی بانڈی پورہ میں رسم چہلم میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر کئی نوجوانوں نے پاکستانی پرچم تھام رکھے تھے اور وہ آزادی کے نعرے لگاتے رہے۔ شرکا نے شہید کو زبردست خرا ج عقیدت پیش کیا۔ جہاں شہدا کے اتنے اور ایسے دیوانے ہیں’ وہاں طاقت کے ذریعے کسی قوم کو تادیر غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔
kashmir Problem
کشمیریوں کی شدت اختیار کرتی ہوئی تحریک ا?زادی اس امر کا ثبوت ہے کہ بھارت پیلٹ گنوں کے ذریعے اسے زیادہ دیر تک دبا کر نہیں رکھ سکتا’ اس کے باوجود بھارتی رہنمائوں کا اصرار اس بات پر ہے کہ کشمیر کو مذاکرات کا حصہ نہ بنایا جائے۔ یہ اصرار اس حقیقت کے باوجود کیا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر نہ تو دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بہتری ا? سکتی ہے اور نہ ہی اس خطے میں پائیدار امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ ایک تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے دو بڑے فریق ایٹمی طاقتیں ہیں’ لہٰذا اس کے حل کی ضرورت اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
کیونکہ خدانخواستہ کوئی چھوٹی سی غلط فہمی ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا’ اور ظاہر ہے کہ ایسی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا’ سب شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ فتح کا جشن منانے کو کچھ باقی نہیں بچتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمران اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر محض دہشت گردی ہی نہیں بلکہ ان تمام اہم مسائل کے حل کے سلسلے میں اخلاص کا مظاہرہ کریں’ جو دونوں ملکوں کے مابین تنائو کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے مذاکرات مشروط نہیں بلکہ غیرمشروط ہونے چاہئیں’ بھارت کو پاکستان کا یہی جواب بنتا ہے۔اگر بھارت اس پر تیار نہیں ہوتا تو ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔