تحریر: نادیہ خان بلوچ پاک بھارت کرکٹ سریز ہو یا پھر کسی ایونٹ میں پاک بھارت کا کوئی میچ. ہمیشہ سے ہی بھارتی سیاسی جماعتیں خاص کر بھارتی حکومت کیلیے پھانسی کا پھندہ ہی بن جاتا ہے. بھارتی حکومت اور انکی لاڈلی انتہا پسند جماعتیں اسے تنقید کا نشانہ بنا کر اسکی راہ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتیں. وہ جو ہمارے پی ایم صاحب کو اچانک برتھ ڈے وش کرنے چلے آتے ہیں بنا کسی ہائی سیکورٹی کے وہی امن کا دعوی کرنے والے کھیل پر پھر سیاست کرتے ہیں.
سیاسی کشیدگیوں کے باوجود ہمیشہ پاکستان نے کرکٹ ڈپلومیسی کی راہ اپنانی چاہی مگر بھارت اس پہ بھی کبھی ساتھ نہ دے پایا ہمیشہ اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد بات سے مکر گیا. ماضی کی کیا بات کروں آپ حال کو ہی دیکھ لیں. 2012 میں پاکستان ان حالات میں انڈیا گیا جب دونوں ملکوں کے تعلقات کچھ خاص اچھے نہ تھے. یہ باقاعدہ طورپر ایک مکمل سریز تو نہ تھی مگر پاکستان نے امن کا خواں ہونے کا ایک عملی ثبوت دیا. اسکے بعد جب 2015 میں پاک بھارت سریز طے تھی جسکی میزبانی پاکستان کو کرنی تھی.
بھارت نے پہلے یہ دعوت قبول کر بھی لی اور متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کیلیے راضی بھی ہوگیا مگر عین وقت پر مکر گیا. مانو منہ میں دہی جما لیا. پی سی بی چیئر مین شہر یار حسن صاحب اس سریز کو کرانے کیلیے ترلے کرتے رہے،ایسے پاپڑ بیلے جو انہیں زندگی بھر یاد رہیں گے. مگر مجال ہے جو بھارتی حکومت نے چپ کا روزہ توڑا ہو. دوسری جانب مودی سرکار کی لاڈلی شیو سینا نے صاف صاف کہہ دیا کسی بھی صورت یہ سریز نہیں ہونے دیں گے.
پھر میں نے کیا پوری دنیا نے یہ دیکھا کہ بھارتی حکومت نے شیو سینا کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور یہ سریز نہ ہو پائی.اسکے بعد میڈیا میں یہ افواہیں سننے کو ملیں پاکستان بھارت کے اس رویے کو دیکھ کر شاید ٹی 20 ورلڈ کپ جو بھارت کی سرزمین پر ہی ہونا قرار پایا ہے اس میں شمولیت سے انکار کردے مگر اب کی بار بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان حکومت نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا اور بھارت ٹیم بھیجنے کیلیے راضی ہوگیا مگر بھارت دشمنی نبھانے اور دوغلے رویے سے باز نہ آیا. پاک بھارت میچ کے خلاف بیکار کی ہٹ دھرمی اور احتجاج آڑے آ گیا.
ICC T20 World Cup
پاک بھارت میچ شیڈول کے مطابق دھرم شالہ سٹیڈیم میں ہونا قرار پایا تھا.مگر بھارتی کرکٹ بورڈ اور بھارتی حکومت دونوں نے پاکستانی ٹیم کو سیکورٹی فراہم کرنے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے. صاف صاف کہہ دیا ہم تحفظ نہیں دیں گے. ہما چل پردیش کے وزیر اعلی نے یہاں تک کہہ دیا دھرم شالہ کی عوام کسی بھی صورت یہ میچ یہاں نہیں ہونے دے گی. اگر یہاں میچ ہوا اور تماشئیوں نے کچھ کیا کوئی احتجاج کیا انہیں ہم نہیں روکیں گے نہ ہی اسکے ذمہ دار ہوں گے. اسکے ساتھ اور بھی کئی پارٹیاں بھی اس میچ کی مخالفت کرنے میدان میں اتر آئیں. بھارتی کرکٹ بورڈ اور بھارتی حکومت ایک بار پھر انتہا پسندوں کے آگے ہار گئے. گھٹنے ٹیک دیے.
آئی سی سی نے پاک بھارت میچ دھرم شالہ سے کولکتہ منتقل کردیا. مگر اس پہ بھی انتہا پسندوں کے کلیجے پر ٹھنڈ نہ پڑی. انہیں چین نہ آیا. کہنے لگے کولکتہ سٹیڈیم کی بھی پچ اکھاڑ ڈالیں گے.یہاں نہیں کھیلنے دیں گے وہاں نہیں کھیلنے دیں گے وہاں بھی نہیں کھیلنے دیں.گویا آئی سی سی ایونٹ نہ ہوا کوئی مذاق ہی ہوگیا. ایک بات سمجھ نہیں آتی جب بھارت بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف میچ کھیل سکتا ہے اس پہ پاکستان سے نفرت کرنے والی کسی بھی پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں.سب خاموش رہے تو اب کیوں عوام کے کاندھے پر بندوق رکھ کے چلائی جارہی ہے اور احتجاج کا ڈرامہ کیا جارہا ہے؟شائقین کرکٹ تو کبھی ایسا نہیں چاہتے.ایک پاکستانی اور ایک کرکٹ لور کے طورپر میں بھی چاہتی ہوں یہ میچ ہو.کیوں بھارتی ایجنڈوں نے کھیل کو مذاق بنا دیا ہے.جب مہمان ٹیم کو سیکورٹی نہیں دے سکتے تھے تو شروع میں ہی انکار کردیتے. یہ تو کرکٹ کی انسلٹ ہے.
اب اگر کولکتہ میں کوئی حادثہ ہوگیا تو کون ذمہ دار؟ کیا کولکتہ کے شائقین پاکستان کو پر امن طریقے سے پرفارم کرنے دیں گے؟ کیا یہاں پر فل پروف سیکورٹی ملے گی؟ جگہ بدلنے سے حالات تو نہیں بدل گئے. وہی دل میں نفرت کا ذہر رکھنے والے سانپ کے پجاری بھارتی ہیں جن کو جتنا بھی دودھ پلاؤ گے ڈسنے سے باز نہیں آئیں گے. کولکتہ وہی سٹیڈیم ہے نا؟ جہاں پاک بھارت میچ میں شائقین پاکستان کی برتری دیکھ کر سیخ پا ہوگئے تھے. سٹیڈیم میں کئی جگہوں پر آگ لگا دی تھی. میچ روکنا پڑ گیا تھا. اب تو اس سے بھی زیادہ حالات خراب ہیں یہاں اگر کوئی لاڈلی جماعت آگئی ہنگامہ کر دیا تو؟ویسے بھی تو وہ ہائی سیکورٹی کے باوجود کہیں بھی گھس کے پہنچ جاتے ہیں.وہاں 20تو ہزار شائقین تھے یہاں 1 لاکھ ہوں گے ان ایک لاکھ میں اگر ایک ہزار بھی مشتعل ہوکر بد نظمی پر آگئے تو بہت زیادہ حالات خراب ہوسکتے ہیں.
Pakistani Team
پاکستان کو ان حالات میں اپنی ٹیم نہیں بھیجنی چاہیے اور اگر پاکستان اپنی ٹیم بھیجتا بھی ہے تو مکمل طورپر سیکورٹی اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے کی گارنٹی لے.اور ایسا تو ہوگا ہی نہیں. بس زبانی دعوے ہوں گے اور پھر سے وہی سب. مجھے تو لگتا ہے جس طرح بھارتی حکومت کی لاڈلی شیو سینا ہے اسی طرح آئی سی سی کا لاڈلہ بھارت ہے.
آئی سی سی اسکے خلاف کیوں کوئی ایکشن نہیں لیتی؟ ایک حکومت ایک کرکٹ بورڈ جو سرعام کہہ رہا ہے پاکستان یہاں نہ آئے ہم نہیں کھیلنے دیں گے سیکورٹی نہیں دیں گے جس ملک کے شائقین پہلے بھی کئی بار حالات خراب کرچکے ہیں. کبھی کسی ٹیم پر پتھراؤ کیا گیا تو کبھی کسی ٹیم کے کھلاڑیوں پر بوتلیں پھینکی گئیں کبھی ان حالات کی وجہ سے ہنگامی طورپر میچ کا فیصلہ کرنا پڑا اور کبھی اس بورڈ نے آئی سی سی کے فیصلے پر اعتراض کرکے پاکستانی امپائر کو امپائرنگ سے روک دیا اور دھمکیاں دیں.
کیوں آئی سی سی اسکا نوٹس نہیں لیتی؟ پاکستان جسکا امیج دنیا کی نظر میں کچھ اچھا نہیں رہا مگر وہاں جب ایک بار ایسے حالات ہوئے تو کئی سالوں تک وہاں کے کرکٹ گراؤنڈ اجڑ گئے مگر بھارت کے آئے روز تماشوں کے باوجود آئی سی سی یہاں ایونٹ کراتی ہے٫ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے. اب تو کھیل میں بھی سیاست شروع ہوگئی ہے.ویسے بھارت یہ سب کرکے دنیا کو یہ ضرور بتا رہا ہے کہ کس قدر بھارت میں امن ہے اور کتنا امن کا خواہش مند ہے وہ، مگر سوچنے کی تو یہ بات ہے کیا اب کرکٹ میں بھی بھارت کی دہشتگردی چلے گی؟کیا کرکٹ کا حال بھی مظلوم کشمیروں جیسا ہو گا؟