سنگرور (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچ کے فوراً بعد کشمیری طلبہ پر حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ شکست سے ناراض ہندو قوم پرستوں کا گروپ بھارتی کپتان ویراٹ کوہلی کو غدار قرار دے رہا ہے۔
اتوار کی رات کو جیسے ہی ٹی 20 ورلڈ کپ میچ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دی، بھارت کے متعدد تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ پر حملے شروع ہو گئے، جن پر قابوپانے کے لیے انتظامیہ کو پولیس طلب کرنی پڑی۔ ان حملوں میں متعدد کشمیری طلبہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ماضی میں بھی کشمیر سے باہر بھارتی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو مختلف شہروں میں کبھی قوم پرستی، کبھی کشمیر کی آزادی، تو کبھی کرکٹ میچ کے حوالے سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بیشتر آبادی بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ میں پاکستانی ٹیم کی حمایت کرتی ہے۔ کل کے میچ میں پاکستان نے بھارت کو زبردست شکست دی تھی۔
بھارتی ریاست پنجاب میں پولیس کے مطابق پہلا حملہ ضلع سنگرور میں واقع ‘بھائی گرو داس انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی’ میں ہوا۔ کالج نے اس حملے سے متعلق ایک ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں ہاسٹل کے اندر کشمیری طلبہ پر حملے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی نوعیت کا دوسرا حملہ موہالی کے کھرار کی ‘ریات بھارت یونیورسٹی’ میں ہوا اور وہاں بھی کشمیری طلبہ کو نشانہ بنایا گیا۔
کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکام سے کشمیر ی طلبہ کی مدد کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”گزشتہ رات پنجاب کے کالج میں کچھ کشمیری طلبہ کے ساتھ جسمانی اور زبانی حملوں کے واقعات کے بارے میں سن کر بہت تکلیف ہوئی ہے۔”
کشمیری طلبہ ایسوسی ایشن کے ترجمان ناصر کہویہامی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”سنگرور اور کھرار موہالی میں جن کشمیری طلبہ پر حملہ ہوا، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہیں مقامی لوگوں اور دیگر پنجابی طلبہ نے بچایا۔ ریاست بہار، اتر پردیش اور ہریانہ کے طلبہ نے ان کے ہاسٹل کے کمروں میں گھس کر انہیں مارا پیٹا اور ہنگامہ آرائی کی۔”
سنگرور کالج کے ایک طالب علم نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ہاسٹل کی حفاظت کرنے والے گارڈز نے یو پی اور بہار کے طلبہ کو ان کے ہاسٹل میں اندر آنے کی اجازت دی جنہوں نے اندر داخل ہوتے ہی حملہ کر دیا۔ بعد میں پولیس کو طلب کیا گیا جس نے پہنچ کر حالات پر قابو پانے کی کوشش کی۔
بھارتی میڈیا نے علاقے کے ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ میچ کے دوران، ”جب بھی پاکستانی کھلاڑی رن بنا رہے تھے اس وقت کشمیری طلبہ ان کی حمایت میں آواز بلند کر رہے تھے، جبکہ اسی دوران آزادی کے نعرے بھی لگے۔”
پولیس افسر کے مطابق، ”جب میچ ختم ہوا تو یو پی اور بہار کے طلبہ کشمیری طلبہ کے کمروں میں گھس کر ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ بعد میں بعض کشمیری طلبہ نے بھی یو پی اور بہار کے طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی۔ پولیس اور کالج کی انتظامیہ نے بعد میں اس معاملے کو حل کر لیا۔” اطلاعات کے مطابق لڑائی کے دوران سکھ طلبہ نے کشمیریوں کی مدد کی۔
ناصر کہویہامی کے مطابق موہالی میں کشمیری طلبہ کو ہریانہ کے بہت سے غنڈوں نے نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا، ”پنجاب پولیس اپنی ریاست میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ میں نے بھائی گرداس انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج میں کئی لوگوں سے بات کی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بہار کے طلبہ نے انہیں مارا، کمروں میں توڑ پھوڑ کی، ہال کو نقصان پہنچایا، اور یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو گالی دی اور انہیں مارا پیٹا۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیری طلبہ پر حملے میں ملوث تمام افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور ہمارے طلبہ کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ کشمیری طلبہ پر چند غنڈوں کی جانب سے حملے کے سبب طلبہ تشویش میں مبتلا ہیں۔”
گزشتہ رات کے میچ کے بارے میں اب بھی سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ بیشتر کھلاڑیوں، ماہرین اور بھارتی کرکٹ مبصرین نے بہترین کارکردگی کے لیے پاکستان کو مبارک باد پیش کی ہے۔ کھیل کے بعد جس طرح کوہلی اور دھونی نے پاکستانی کھلاڑیوں سے بات کی اور انہیں مبارک باد پیش کی، اسے بھی یہ کہہ کر سراہا جا رہا ہے کہ بھارت نے ہار کے بعد بھی دل جیت لیا۔
لیکن بھارت میں ہندو قوم پرستوں کا ایک گروہ اس شکست سے اس قدر نالاں ہے کہ وہ سارا غصہ مسلمانوں پر نکال رہا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کے سابق سکریٹری اور سخت گیر ہندو خیالات کے مبلغ پشپیندر کلشریٹرابھی اس شکست کے لیے کوہلی کامسلمان ہونا قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ لکھا، ”مولانا ویراٹ الدین” اور اسیکوہلی کو ٹیگ بھی کیا ہے۔
کرشنا نامی ایک صارف نے بھی ویراٹ کوہلی کو خفیہ مسلمان ثابت کرنے کے لیے بغیر مونچھ والی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ”کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کوہلی صرف میچ کے وقت مونچھ لگاتے ہیں۔ یہ ان کی اصلی تصویر ہے جو ایک زوم میٹنگ سے لیک ہوئی تھی۔ ان کا اصلی نام ویراٹ الدین کوہ علی ہے۔”
اجیت نامی ایک صارف نے ٹویٹر پر لکھا، ”شامی نے مسلم ہونے کا پورا فرض نبھایا۔” بھارتی گیند باز محمد شامی کے آخری اوور میں ایک چھکا اور دو چو کے لگے تھے اور اسی اوور میں پاکستان نے میچ جیت لیا تھا۔
بہت سے لوگ اتنے برہم ہیں کہ بھارتی کپتان کوہلی کو غدار بتا رہے اور مسلم کھلاڑی محمد شامی کے لیے گالی گلوج والے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بہر حال ہندووں کا ایک بڑا طبقہ کھیل کو مذہب کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔