بھارت کی جس طرح لداخ میں چین نے گوشمالی کی، اس کے بعد تحفظات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ بھارت اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کی آڑ میں مذموم کاروائیاں کرنے کا ارادہ کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ فالس فلیگ آپریشن کا مقصد مملکت کے خلاف ایسی سازش تراشنا جس سے عالمی برداری میں ریاست بدنام ہوسکے، بالخصوص دہشت گردی کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے کرکے اسے دہشت گردوں کا معاون ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔
پاکستان کے خدشات میں وزن اسی وجہ سے ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی برادری کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کا بہانہ تلاش کررہا ہے۔ بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا جا سکتا ہے۔’بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کیلئے فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے‘۔بھارت کی سازشوں کا محور بلوچستان بنا ہوا ہے اور بلوچستان میں مختلف سازشیں رچا کر پاکستان میں بے امنی کی فضا قائم کرنے کے لئے بھارت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اسی طرح بھارت افغانستان میں امن کوششوں کو مسلسل سبوتاژ کرنے کی سازشیں کررہا ہے۔
بھارت، افغانستان کے بدلتے سیاسی حالات و پاکستان کے کلیدی کردار سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ہندو اانتہا پسند حکومت نہیں چاہتی کہ افغانستان میں اُس کی مرضی کے بغیر پائدار امن کا قیام امن میں آسکے، افغانستان میں بھارت اپنا ایک الگ کلیدی کردار کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی جانب سے بھارت پر زور بڑھایا گیا کہ وہ افغان طالبان سے مذاکرات کی راہ اپنائے، دوسری جانب افغان طالبان نے بھارت کی ماضی کے ریشہ دیوانیوں کو مد ظر رکھتے ہوئے، واضح طور پر کہا ہے کہ بھارت اگر افغانستان میں امن کے لئے اپنا طرز عمل تبدیل کرتا ہے تو دیگر ممالک کے طرح بھارت کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات بنانے میں کوئی رکاؤٹ نہیں ہے، لیکن اس کے لئے بھارت کو اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنا ہوگا۔
بھارت، خطے میں پاکستان کے اثر رسوخ کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، جس طرح ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کیں اور بیرون سرزمین میں ملک دشمن عناصر کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچایا اس بھارت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، بھارت اپنے سفارتی محاذ پر سیکولر بیانیہ کے منافی طرز عمل کی وجہ سے تیزی کے ساتھ گراؤٹ کا شکار ہے، عالمی برداری میں بھارت کی مذموم منفی سرگرمیوں کو اب کھل کر مذمت کی جانے لگی ہے جس سے بھارت کو ہر سفارتی محاذ پر ناکامی و شرمندگی کا سامنا ہورہا ہے۔ بھارت کے لئے، پاکستان کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دینے کے لئے ایسی حرکات ناگزیر قرار دی جاتی ہیں، جس سے بھارت میں ہونے والی انتہا پسند و مذہبی اقلیتوں کے خلاف کاروائیوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔ اس کے لئے بھارت کا پاکستان کے خلاف جھوٹے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنا کوئی نہیں بات نہیں ہے۔بالخصوص مقبوضہ وادی کشمیر میں جس طرح نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے اور ان پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں، اس سے عالمی برداری کی آنکھیں کھلنا شروع ہوگئی ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر میں متعارف کرائے جانے والے نئے قانون کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے منافی قرار دیا ہے۔پاکستان کی قیادت تسلسل کے ساتھ عالمی دنیا کو آگاہ کرتی رہی ہے کہ بھارت میں برسراقتدار انتہا پسند مودی حکومت کسی بھی وقت اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کے لیے فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچا سکتا ہے جیسا کہ اس نے ماضی میں ناکام کوشش کی تھی۔
بھارت ہمیشہ پاکستان کے خلاف اپنی عوام کو جنگی جنون میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے، سیاست ہو یا بھارتی میڈیا، تشدد کے فروغ کو ہوا دیتے ہیں، امن کی فضا قائم کرنے کے بجائے انتہا پسند ہندو و جانبدار میڈیا اپنے جھوٹے و منفی پروپیگنڈوں کے ساتھ بھارتی عوام کو مسلسل دھوکے میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت متعدد سازشیں کرچکا ہے تاکہ مذموم چال بنا کر فالس فلیگ آپریشن کا جھوٹا ڈرامہ رچا سکے۔ حال ہی میں ایک ایسے ڈی ایس پی کو قربانی کا بکرا بنا گیا جسے 15اگست2019 کو صدارتی طلائی تغمہ دیا گیا تھا، بھارتی میڈیا کے مطابق ضلع گولگام کے علاقے ونپوہ کے قریب جموں، سرینگر شاہراہ پر ایک صدارتی ایوارڈ یافتہ سکھ ڈی ایس پی دیویندرسنگھ حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے 2کشمیریوں نوید بابواور آصف کواپنی گاڑی میں دہلی لے جاتے ہوئے گرفتار کیا۔بھارتی میڈیا خود فالس فیلگ آپریشن کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے بتاچکا ہے کہ گرفتار ڈی ایس پی دیویندرسنگھ ماضی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں کافی سرگرم رہا ہے۔پاکستان کافی عرصہ سے عالمی برادری کو باور کرارہا تھا کہ بھارت کوئی جعلی آپریشن کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھی کوئی بھارتی چال ہوسکتی ہے جس کے تحت وہ ان کشمیریوں سے دہلی میں ممبئی حملوں جیسی کوئی بڑی کارروائی کروا کر الزام پاکستان پر لگا سکتا تھا۔ نوید بابو کے خلاف پولیس اہلکاروں کے مبینہ قتل سمیت 18 ایف آئی آرز درج ہیں۔ اس پر مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد گیارہ غیرمقامی مزدوروں کوہلاک کرنے کا بھی الزام ہے۔ جموں کشمیر پولیس کے مطابق بادامی باغ چھاونی میں واقع دیویندرسنگھ کے گھر سے ایک کلاشنکوف رائفل اور دوپستول برآمد ہوئے جبکہ نویدبابوکی نشاندہی پر بھی ایک کلاشنکوف اور ایک پستول مبینہ طور برآمد کیا گیا۔واضح رہے کہ دیویندر سنگھ اس وقت بھی بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آیا تھا جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیس میں سزائے موت پانے والے کشمیر ی رہنما افضل گرو نے 2013ء میں پھانسی سے قبل ایک خط لکھ کر بتایا تھا کہ دیویندرسنگھ نے اسے پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے ملزموں میں سے ایک کو اپنے ساتھ دہلی لے جانے اوروہاں رہائشی سہولت فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔ان گرفتاریوں پر پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹویٹ کیا تھا کہ کنٹرول لائن پر ہلاکتوں اور نعشوں کی بے حرمتی کے بعد یہ کارروائی ایک ناکام فالس فلیگ آپریشن معلوم ہوتی ہے جس میں بھارت 2001 ء میں دہلی اور 2008ء میں ممبئی حملوں جیسی کوئی کارروائی کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس میں ناکام ہوگیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ملزموں سے ہونے والی تفتیش کو منظرعام پر لایا جائے گا اورگرفتار ملزم کسی جیل میں لسٹڈ پائے جائیں گے۔
بھارت کا مقصد کشمیریوں کو حق خود اردایت سے محروم رکھنا اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کی کاروائیاں ثابت کرکے انہیں، انسانی حقوق سے محروم کرنا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کی پالیسیاں مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہیں، ان پالیسیوں کی وجہ سے مودی سرکاری کشمیریوں کو انسانیت سے بھی کم تر درجہ دیا جا رہا ہے اور انہیں طاقت کے ظالمانہ استعمال سے دبایا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کو خوراک اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جارہا ہے اور نوجوان نسل کی وسیع پیمانے پرگرفتاریاں جاری ہیں۔ مواصلات بند کرکے کشمیریوں کو باقی دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔بھارت کی ان سازشوں پر مسلح افواج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی جنگیں جذبہ حب الوطنی اور سپاہیوں کی کارکردگی کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں۔
’ہم اپنے دشمنوں کی ہر حرکت سے بخوبی واقف ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھابھارت جو کھیل رہا ہے، پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت اس سے بخوبی آگاہ ہے۔‘’ہم ایک ذمہ دار اور پروفیشنل فورس ہیں۔ جب ہمیں اشتعال دلایا جاتا ہے تو ہم صرف ملٹری اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ بھارتی فورسز نہتی سول آبادی کو نشانہ بناتی ہیں۔‘ ’ہم بھارت کی فوجی سرگرمیوں میں اضافے کو نہایت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ہم ہر قیمت پر اپنی سا لمیت اور خودمختاری کا دفاع کریں گے۔‘’آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوں کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے‘.بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تسلیم شدہ تنازع ہے، بھارت نے 73 سال سے اپنے زیر انتظام کشمیر میں ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، لیکن ظلم کے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں کو اب دبایا نہیں جاسکتا۔‘انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اس کی قراردادوں کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا:’مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف ہمارا قومی مفاد ہے بلکہ ہماری قومی سلامتی کا ضامن بھی ہے۔