اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دبے الفاظ میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی جنگی طیاروں کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے کے بعد کیوں مار گرایا نہیں گیا؟
اس اہم سوال کی بازگشت منگل کی علی الصبح بھارتی حملے کے بعد سب سے پہلے سوشل میڈیا پر سنائی دی اور بعد میں یہی سوال پارلیمینٹ اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے کئی گئی پریس کانفرنسوں میں بھی گونجتا رہا۔
منگل کی صبح وزیراعظم عمران خان نے حملے کے فوری بعد کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اس اہم اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خزانہ اسد عمر، چئیرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جبکہ فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ بند کمرے کے اس غیر معمولی اجلاس میں بالا کوٹ کے قریب ’دہشتگردی کے مبینہ کیمپ‘ پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی ہے، جس کا جواب دیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے وقت اور مقام کا تعین خود کیا جائے گا، ’’بھارت کی طرف سے یہ کارروائی انتخابی ماحول میں اندرونی مقاصد کے لیے کی گئی ہے اور اس عمل سے خطے میں امن کو شدید خطرے میں ڈالا گیا۔‘‘ اسی اعلامیے میں پاکستان کی طرف سے حملے کی جگہ کو مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے لیے کھولنے کا اعلان بھی کیا گیا۔
اسی اجلاس میں وزیراعظم نے ستائیس فروری بدھ کے روز نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس طلب کرنے کا اعلان بھی کیا۔ یہ اجلاس اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ اس اتھارٹی کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ اتھارٹی پاک فوج، بحریہ ، فضائیہ اور اسٹرٹیجیک کمانڈ کے آپریشنز کی مشترکہ طور پر نگران ہوتی ہے۔
اس اہم اجلاس کے بعد اس میں شریک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع اور وزیر خزانہ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے صحافیوں کےسوالات کے جواب دیے گئے۔ صحافیوں کی طرف سے بھارتی طیارے مار نہ گرانے، پاک فضائیہ کی طرف سے ’بروقت کارروائی نہ کرنے‘ اور مستقبل کی حکمت عملی جیسے تیکھے سوالات بھی کیے گئے تاہم وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے محتاط انداز میں بتایا کہ حکومت اس معاملے پر پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی۔ عالمی برادری کو متوجہ کرنے کے لیے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کردار ادا کریں گے۔ جب اس نمائندے نے پارلیمینٹ ہاوس آمد پر وزیر خارجہ سے پوچھا کہ اس پر بین الاقوامی رد عمل کیوں نہیں آیا تو وزیر خارجہ نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
اپوزیشن جماعتوں کو ایک نکتے پر لانے کے لیے وزیر خارجہ، دفاع اور خزانہ پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
اسی پریس کانفرنس میں شریک وزیر دفاع پرویز خٹک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت کی طرف سے ہونے والے حملے میں بھارتی جہاز چار پانچ کلومیٹر اندر آئے اور انہوں نے بم پھینکا۔ ہماری ائیر فورس تیار تھی چونکہ رات کا وقت تھا پتہ نہیں چلا کہ کتنا نقصان ہوا؟ انہوں نے اس کا انتظار کیا لیکن واضع ہدایات مل چکی ہیں اگر آگے کوئی ایسی حرکت ہو گی تو ایکشن لیا جائے گا۔ ہم کئی چیزیں یہاں نہیں بتا سکتے تاہم رد عمل ضرور دیا جائےگا۔ وزیر خارجہ نے لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر طرح کے امکانات کے لیے تیار تھے۔
دوسری طرف پارلیمینٹ کا متوازی اجلاس بھی جاری تھا۔ قومی اسمبلی میں وزرا اور حکومتی و اپوزیشن ارکان کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم پارلیمینٹ اجلاس میں پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ اس اہم موقعے پر اپوزیشن جماعتیں متحد ہے، ’’بھارت یاد رکھے کہ جہاد ہمارے لیے حلال اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اپوزیشن بھارت کےسامنے سرحد پر کھڑا ہونے کے لیے تیار ہے۔‘‘
اجلاس میں شریک مسلم لیگ ن کے سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے خطاب میں کہا کہ متحدہ عرب امارات میں او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو گیسٹ آف آنر کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ ’’ہمیں اس معاملے پر او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔‘‘ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی خواجہ آصف کی تجویز کی حمایت کی۔
پارلیمینٹ اجلاس میں شریک وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو منعقد ہوگا جبکہ بدھ کے روز تمام پارلیمانی رہنماوں کو تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بند کمرے کے اندر بریفنگ دی جائے گی ۔
توقع کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس اہم اجلاس میں شریک ہوکر حکومت کی طرف سے کیے گئے فیصلوں سے ایوان کو اعتماد میں لیں گے ۔
پارلیمینٹ کے اجلاس کے دوران ہی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے سلائیڈز کی مدد سے بھارتی کارروائی کے بارے میں بریفنگ دی اور کہا کہ بھارت کی طرف سے تین سو پچاس افراد کے مارے جانے کا کہا جا رہا ہے، ’’ہم کہتے ہیں کہ اگر دس افراد بھی مرے ہوں تو ان کے جنازے تو ہونے چاہیں۔‘‘ فوجی ترجمان نے اپنے بیان کی تصدیق کے لیے بھارتی میڈیا اور فوجی نمائندوں کو موقع پر لیجانے کی دعوت بھی دی۔
اسلام آباد میں ہونے والی تمام پریس کانفرنسز کو کم و بیش تمام نجی و سرکاری میڈیا نے براہ راست نشر کیا۔ ٹی وی چینلز پر کیے جانے والے تبصروں میں پاکستانی فوج کے بارے میں مجموعی طور پر رویہ مثبت رکھا گیا اور کسی قسم کی تنقید سے گریز کیا گیا۔