ہمسایہ ملک بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اور بھارت کو نو منتخب وزیراعظم نرنیدر مودی مسلمان دشمن۔ جسے انتہا پسند ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسے عالمی تجزیہ کار خطے میں اہم تبدیلی اور انقلاب سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کیونکہ مودی کی مسلمان اور پاکستان دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں، گجرات اور آسام میں جو غیر انسانی سلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ اسے ہم ابھی تک نہیں بھول پائے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی نو منتخب نرنیدر مودی کی تقریب حلف بردراری میں شرکت کی دعوت کو قبول کر لیا۔
جذبہ خیر سنگالی کے تحت حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیئے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہم دوستی کا ہاتھ وہاں سے بڑھانا چاہتے ہیں جہاں سے واجپائی کے ساتھ چھوٹا تھا۔ واضع کرتا چلوں کہ پاکستان کی طویل ترین سرحد (تقریبا 2200 کلومیٹر) بھارت کے ساتھ ملحق ہے یہ سرحد بحرہ عرب کے ساحل پر واقع رن کچھ کے علاقے سے جموں کشمیر تک جاتی ہے۔ 1998 ء کی بات ہے جب بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے 1998 ء میں پانچ زیر زمین ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کیا ۔ عالمی سطح پر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی مذمت کی گئی اور انہیں جنوبی ایشیاء اور عالمی امن کے لیئے خطرناک قرار دیا گیا۔ جو اب پاکستان نے اپنے گردنواح میں طاقت کے توازن کو درست(برقرار) کرنے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیئے کچھ ہی دنوں بعد صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں راسکوہ کے مقام پر چھ ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی طاقت بننے والے ملکوں کی لسٹ میں اپنا نام درج کروادیا۔ جسے دیکھ کر بھارت ششدرہ رہ گیا اور سوچوں کی دلدل میں غرق ہوتا گیا۔
India, Pakistan
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا آغاز 1947 ء میں قیام پاکستان کے وقت ہی ہو گیا تھا۔ جب ہنددئوں کی کانگرس پارٹی نے بادل ناخواستہ پاکستان کے قیام کو قبول کیا تھا واضع کرتا چلوں کہ پچھلے سال لائن آف کنٹرول پر ہونیوالی کشیدگی کے باعث دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں ٹھہرائو آگیا تھا۔ رہی بات بھارت کی تو ہمیشہ پاکستان نے ہی دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں پہل کی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان کی مسلسل کوشش کے باوجود پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوشگوار خطوط پر استوار نہ ہو سکے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان شکوک و شبہات کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ جسے پاٹنا ناممکن ہے بلکہ جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
اس خلیج کا نام ہے تنازعہ کشمیر اسی تنازعہ کی وجہ سے اب تک تین بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1948 ء میں دوسری 1965 ء میں اور تیسری 1971 ء میں ہوئی اور بھارت اب بھی لڑنے کے لیئے اپنے پر تولتا رہتا ہے۔
کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ابتدائی دور سے لے کر اب تک بھارت نے پاکستان کے لیئے کئی مسائل پیدا کئے جن میںقابل ذکر یہ ہیں۔ اثاثوں کی تقسیم ، فسادات اور مہاجرین کا مسئلہ، نہری پانی کا مسئلہ، تجارت کے مسائل، سرحدوں پر بھارتی فوج کا اجتماع اور سرحدوں پر بھارتی فائرنگ سے نہتے پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں، ریاست جموں کشمیر پر حملہ، ریاست جونا گڑھ اور حیدرآباد کے مسائل ، پاکستان کے خلاف سفارتی اور عوامی سطح پر پروپیگنڈے، بھارت میں مقیم پاکستانی مزدوروں کی ناجائز گرفتاریاں۔ دونوں ملکوں کی جنگ بندی پر پاکستان کی پیش کردہ تجویز کے خلاف پاکستان کی خارجہ پالیسی پر غیر ضروری اعتراضات، سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار درجنوں بے گناہ پاکستانی مسلمانوں کا بیدردی سے قتل عام۔ وزیراعظم نواز شریف جذبہ خیرسنگالی کے تحت گئے ہیں۔
انہوں نے اپنے مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ گویا کہ وہ ہمیں اپنا ماتحت سمجھ کر غصیلے انداز میں مطالبات پیش کیئے اور ہمارے وزیراعظم چپ سادھ کر بیٹھے رہے کشمیر، سرکریک، سیاچن اورآبی تنازع میں سے ان تصفید طلب مسائل کا حل نکالنا تو درکنار ذکر کرنا بھی گوراہ نہیں کیا وزیراعظم نواز شریف سے معذرت کے ساتھ کہ جب تک ان تصفید طلب مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک دونوں ممالک کے مابین خوشگوار تعلقات کسی صورت قائم نہیں ہو سکتے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت دشمنی بھی نبھا رہا ہے اور اوپر سے ہمدردی بھی یہ تو اس بات کے مترادف ہے کہ ” بغل میں چھری اور منہ میں رام رام” ابھی بھی وقت ہے کہ دونوں ممالک لڑائی جھگڑوں اور اور رنجشوں کو ختم کر کے تمام تنازعات مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ کر حل کرتے ہوئے عوام کی ترقی اور دونوں خطوں میں امن و امان کی فضا کو قائم کریں جنگ و جدل سوائے تباہی اور بھوک و افلاس کے ممالک دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اچھے دوست اور اچھے ہمسائے ہونے کا ثبوت دیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
دوستی کے لیئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا
Mubarak Shamsi
تحریر : سید مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com