اسلام آباد (جیوڈیسک) پلوامہ واقعے کے بعد بھارت و پاکستان کے مابین جاری کشیدگی کے تناظر میں بھارت نے پاکستان کی طرف جانے والے تین دریاں کا پانی روک دیا ہے۔ سندھ طاس منصوبوں کا جائزہ کے لیے بھارتی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔
نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قدم سے سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ جن تین دریاں (ستلج، راوی اور بیاس) کا پانی روکا گیا ہے، معاہدے کے تحت بھارت ان کا پانی استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت کے آبی وسائل کے جونیئر وفاقی وزیر ارجن رام میگھوال نے پاکستانی سرحد سے ملحق صوبہ راجستھان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس تازہ ترین پیش رفت کی اطلاع دی۔ میگھوال نے بتایا، بھارت نے تین مشرقی دریاں کے صفر اعشاریہ پانچ تین ملین ایکٹر فٹ پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روک دیا ہے اور اب یہ پانی بھارت میں ذخیرہ کیا جا رہا ہے ۔ جب کبھی راجستھان اور بھارتی پنجاب کو ضرورت ہوگی، تو اس پانی کو پینے اور آب پاشی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 14فروری کو پلوامہ حملہ کے بعد، جس میں بھارتی نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے پینتالیس جوان مارے گئے تھے، آبی وسائل کے وفاقی وزیر نیتن گڈکری نے اعلان کیا تھا کہ بھارت نے سندھ آبی معاہدے کے تحت دریاں میں اپنے حصے کے پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ سن 1960 کے سندھ آبی معاہدے کے مطابق مغربی دریاں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان استعمال کرے گا جب کہ مشرقی ندیوں یعنی ستلج، راوی اور بیاس کا پانی بھارت کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مشرقی دریاں کے پانی کے تقریبا پینتیس ملین ایکڑ فٹ حصے پر تکنیکی لحاظ سے بھارت کا حق ہے۔ اس میں سے پچانوے فیصد پانی بھارت استعمال کرتا رہا ہے جب کہ صرف پانچ فیصد پانی پچھلے ساٹھ برسوں سے پاکستان کی طرف جا رہا ہے۔
گزشہ ماہ آبی وسائل کے وفاقی وزیر نتن گڈکری نے ٹوئیٹ کر کے کہا تھا، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہماری حکومت نے اپنے حصے کے پانی کو پاکستان کی طرف جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم اس پانی کا رخ موڑ دیں گے اور اسے جموں و کشمیر اور بھارتی پنجاب کے لوگوں کو سپلائی کریں گے۔
اس دوران سندھ طاس منصوبوں کا معائنہ کرنے کے لیے اسی ماہ پاکستان جانے والی اپنی ٹیم کا دورہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب یہ دورہ مارچ 2020 تک ہی ممکن ہو سکے گا۔
اس سے قبل پاکستانی ٹیم نے جنوری کے آخری ہفتے میں چناب پر زیر تعمیر منصوبوں کا جائزہ لیا تھا۔ اس وقت پاکستان کے انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شاہ اور بھارتی کمشنر پی کے سکسینا نے اپنے مشیروں کے ساتھ چناب ندی پر بھارت نگرانی میں زیر تعمیر پاکل ڈل، رتال اور لوور کلانی پن بجلی منصوبوں کا معائنہ کیا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے بگلیہار پن بجلی پروجیکٹ کا بھی دورہ کیا تھا اور بھارتی وفد کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ سندھ آبی معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے کمشنرز ہر پانچ برس میں ایک دوسرے کے دریاں کا معائنہ کر سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ دونوں ملکوں میں دریاں پر کس طرح کے ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام چل رہا ہے۔ موجودہ پانچ سالہ مدت مارچ سن 2020 میں ختم ہو رہی ہے۔
دریں اثنا بھارتی حکام سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور میں کوریڈور کھولنے کے سلسلے میں ضابطوں کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے چودہ مارچ کو اٹاری آنے والے پاکستانی وفد کے خیر مقدم کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کے باوجود عوامی سطح پر رابطے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت میں قوم پرست ہندو تنظیمیں اور بالخصوص حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے ایک عرصے سے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ بھارت کو سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کا مشورہ بھی دیتی رہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ اگر بھارت اس معاہدے سے الگ ہوتا ہے تو اس کے اس فیصلے کو اقدام جنگ تصور کیا جائے گا۔
بھارت میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نئی دہلی حکومت نے اس طرح کا کوئی فیصلہ کیا تو اس کے دور رس اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور بھارت کو عالمی برداری کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھارت کے اس طرح کے کسی بھی فیصلے سے اسے اپنے ایک دوسرے پڑوسی چین کی بھی ناراضی مول لینی پڑے گی۔