ہندوستانی ذہنیت کو ہم پاکستانیوں سے بہتر کوئی نا جانتا ہے اور نا سمجھ سکتا ہے۔ہندوذہنیت نے ہمیشہ بے ایمانی اور مکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ ہماری سرحدوں پر افرا تفری پھیلا کر سمجھتا ہے کہ سکون سے رہ سکے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔گذشتہ چار ماہ سے اس نے ہماری ورکنگ باﺅنڈری اور لائن آف کنٹرول پر غنڈہ گردی سے دہشت پھیلانے کی ناکام کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔بی جے پی اور نرندر مودی کی بربریت سے تو ہم ہی کیا ہندوستان کا ہر مسلمان بھی واقف ہے۔مودی پاکستان پر دہشت گردی کر کے کشمیر میں بی جے پی کا اقتدار قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
اگر آٹھ لاکھ فوجی رائفلزکے ذریعے زبردستی کشمیریوں کے ووٹوں کے بغیر کشمیر میں غاصب حکومت قائم بھی کرلی تو لاٹھی گولی کے دم پر ہی وہ یہاں پر اقتدار و حکومت کر پائے گا؟؟؟ایسا اقتدارمودی حکومت کا صرف دنیا کی آنکھوں دھول جھونکنے کے مترادف ہوگا۔ہندوستان نے بقر عید کے موقعے پر ہمارے شہریوں کی 20،کے لگ بھگ لاشیں گرا کر کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے کی ناکام کوشش بھی کر کے دیکھ لی ہے۔ جس کا سب سے زیادہ اندازہ ہندوستان کو ہی ہوا ہوگا۔
ہندوستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے نئی دہلی میں کہا ہ ے کہ مسئلہِ کشمیر پر پاکستان کو اقوام متحدہ میں جانے کا فائدہ نہ پہلے ہوا ہے اور نہ اب ہوگا ۔پاکستان اور بھارت امن کی سڑک نیو یارک سے نہیں اسلام آباد اور لاہور سے نئی دہلی آتی ہے۔پاکستان جمو وکشمیر کا معاملہ پہلے بھی اقوام متحدہ میں اٹھاتا رہا ہے۔لیکن اب تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔اور اب بھی وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا ہے۔یہ ایک مخصوص ترکیب ہے جو پاکستان بھارت کو خوف ذدہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔پاکستان بھارت سے بات کرے اس کا یقینی حل صرف پاکستان اور بھارت کے پاس ہے۔اقوام متحدہ جا کے پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتا ہے۔
وہ شملہ اور لاہور معاھدے کے تحت مذاکرات کرنے سے انکار کر رہا ہے۔شائد سید اکبر اس بات سے نہ واقف ہیں کہ خود ہندوستان نے مذاکرات کے عمل کو ملتوی کر کے سرحدوں پر اشتعال پھیلانے کا عمل شروع کیا ہوا ہے ۔وہ پاکستان کی سنجیدگی کو ہماری کمزوری سے تعبیر کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندواستان اشتعال انگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے گوا نانہیں چاہتا ہے۔پاکستان مسئلہِ کشمیر کو ہندوستان کی صفِ اول کی قیادت کے وعدوں کے مطابق حل کرنے کا خواہشمند ہے۔پاکستان اس مسئلے کے حل کے لئے انتہائی سنجیدہ ہے۔کیونکہ یہ مسئلہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔پاکستان اس مسئلے کو ہر فورم پر اور ہر ملک میں اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ہندوستان کشمیر پر سے دنیا کی توجہ ہٹاکر اپنے من مانے طریقہِ کار کے تحت اس کا حل تلاش کرنا چاہتا ہے جو کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔مگرہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جب لندن میں کشمیر کاذ کو اجاگر کرنے کےلئے لوگوں نے ایک بہت بڑا مظاہرا کیا تو عمران خان کے اناڑیوں نے اپنے سربراہ کے سیاسی تعصب کی بنا پر بلاول زرداری (جس کو ہم بھی پاکستان کی لیڈر شپ کے حولے سے اہم نہیں سمجھتے ہیں)کو کشمیر کاذ پر بولنے سے روک دیا۔ جس سے ساری دنیا میں پاکستان کی زبر دست سبکی ہوئی اور ہندوستان کا متعصب میڈیا بغلیں بجانے لگا۔عمراں خان کے اناڑی لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ نہیں ہیں۔
ہندوستان کی را ، سی آئی اے اور خاد کے سا تھ مل کر جہاں کہیں بھی اسے تخریب کاری کا موقع ملتا ہے بھر پور تخریب کاری کر جاتی ہے۔پاکستانیوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ واگہ بارڈر پر ہونے والا خود کُش حملہ را کی تخریبی کاروئی کا حصہ ہے۔جس میں 60، سے زیادہ قیمتی جانوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور 185،سے زائد افرادزخمی ہوئے یہ دھماکہ ہمارے سیکورٹی لیپس کی بھی عکاسی کرتاہے ۔کیونکہ ایجنسیز اس کی اطلاع پہلے ہی دے چکی تھیں۔یہ واقعہ پریڈ اور پرچم اتارنے کی تقریب کے اختتام پر اُس وقت کیا گیا جب بڑی تعداد میںلوگ واپس گھروں کو جارہے تھے۔ تقریباََ بیس سالہ خود کُش نوجوان بمبار نے ہجوم میں گھس کر خود کو اڑا لیا۔جس سے انسانی اعضا چیتھڑوں کی طرح بکھر گئے او ر ہر جانب چیخ و پکار اور بھگدڑ سی مچ گئی۔
اس تخریب کاری میں 3 ،رینجرز اہلکار شہید ہوئے ،ایک ہی خاندان کے 9 ،افراد اور ایک دوسرے خاندان کے 5 ،افراد شہید ہوئے ،شہداءمیں 12۔ خوتین اور7 ، بچے بھی شامل بتائے گئے ہیںزخمیوں میں درجنوں افراد کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔اس دھماکے میں 5،کلوگرام بارود کا استعمال کیا گیا تھا۔را کے ذریعے ہندوستان ایسی بزدلانہ کاروئیاں اکثر کرا کے پاکستانیوں کے حوصلے پست کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔اس دھماکہ کی ذمہ داری اُن ہی تین تنظیموں نے قبول کی ہے جن کی ہندوستان، افغانستان اور امریکہ کی جانب سے فنڈنگزکی جا رہی ہیں۔امن کی آشا کا گیت الاپنے والوں کو نوید ہو کہ نرندر مودی سر کار ”جنگ “کی آشا کے سوئے کسی امن ومن کی آشا کو نہیں مانتی ہے۔
Pakistan
بڑی عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ایکشن کے بعد ہندوستان نے خود ہی پاکستانی سرحدوں کے ساتھ اپنی سیکورٹی کو ریڈ الرٹ کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔اس واقعے سے دو دن قبل اس خبر نے پاکستان میں اور بھی سنسنی پیدا کردی تھی کہ بلوچستان میں تخریب کاری کے لئے ہندوستان اور افغانستان سے آنے والا اسلحہ و گولہ بارود پکڑا گیاجس میں 4،ٹن خطر ناک بارودی مواد ،100 ،میزائل، 18،خود کُش جیکٹیں، راکٹس ہزاروں کی تعداد میں گولیا اور دیگر خطر ناک اسلحہ شامل تھا۔اس کاروائی میں ایک دہشت گرد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔یہ کاروائی ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان میں کی گئی ۔پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھیجا جا نے والا اسلحہ اگر نا پکڑا جاتا تو یہ بلوچستان کے محرم کے پروگراموں میں بے دریغ استعمال کیا جاتا اور نہ جانے کتنے بڑے نقصانات پاکستان کو برداشت کرنے پڑتے۔
نئی دہلی کے امام جامع مسجد نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو اپنے بیٹے کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تونریندر مودی کے پالتو اب یہ تڑیاں لگا رہے ہیں کہ نواز شریف اگر دہلی کی جامع مسجد آئے تو ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گی۔ انتہا پسند ہندو جماعت نے یہ بھی کہا کہ دہلی کی جامع مسجد کے امام بخاری غدار ہیںہندوستان کی حکومت انہیں پاکستان بھیجدے ۔ان بیانات اور ہندوستانیوں کی با توں سے یہ اندزہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ہندوستا کا ہندو خاص طور پر نریندر مودی کے دور میں کبھی بھی مسلمانوں یا پاکستان سے ہندوستا کے تعلقات بہتری کی طرف نہیں جا سکتے ہیں۔
دوسری جانب ہندوستان پاکستانی سرحدوں پر مسلسل دراندازی پر لگا ہوا ہے۔ ڈی جی پنجاب رینجرز کا کہنا ہے کہ ہندوستان ورکنگ باﺅنڈری پر چھوٹے پیمانے کی جنگ لڑ رہا ہے ۔جس نے گذشتہ چار سالوں کے دوران ساڑھے تین ہزار حملے چھوٹے ہتھیاروں سے کئے ہیں۔جس سے پاکستان کو دبایا نہیںجا سکتا ہے۔ڈی جی رینجرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کبھی بھی ورکنگ باﺅنڈر کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔پاکستان نے ہمیشہ دفاعی کاروائی کی ہے۔ہندوستان جہاں سے بھی فائرنگ کرےگا وہیں اسے بھر پور جواب دیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کہا ہے کہ کسی کی بھی اجارہ داری اور تھا نیدار قبول نہیں ہندوستان کی در اندازی کا بھر پور جواب دیا جا کوئی بھی کسی غلط فہمی میں نا رہے۔ پاکستان کے فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر امن چاہتے ہیںمگر ہندوستانی جارحیت کا بھر پور جواب دیں گے۔پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہندوستانی جارحیت پر شدید احتجاج کیا گیا اور کہا گیا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ہماری امن پسندی کی پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم خطے میں امن کی خاطر مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ہندوستان پاکستانیوں کے صبر کا امتحان لینے کی کوشش نہ کرے۔پاکستانی قوم اور اس کی عسکری قوت کا اگر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ہندوستان کو بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔
Shabbir Khurshid
تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com