تحریر: ڈاکٹر یاسمین زیدی مقبوضہ وادی کشمیر میں آزادی کے لیے سرگرم متحدہ مزاحمتی قیادت نے بھارت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو مقبوضہ وادی سے فوری طور پر فوج کے انخلا، کالے قوانین کے خاتمہ، نظر بندوں اور گرفتار شدگان کی رہائی’ اور کشمیر کو متنازع مسئلہ قرار دینے کے 4 نکات سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعتماد سازی کی فضا بنانا خود بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر وہ طاقت کے استعمال اور خصوصاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہے’ تو مذاکرات اور بات چیت کا عمل پھر کیسے شروع ہو گا؟ جدوجہدِ آزادی کشمیر کے مرکزی رہنما سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی کے اندر بغاوت کی سی صورتحال پر پریشان ہے اور اسی لیے مذاکرات کا ڈول ڈال رہا ہے، مگر اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
مقبوضہ کشمیر کی متحدہ مزاحمتی قیادت کی شرائط مناسب ہیں۔ ان کی بنیاد پر ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے داخلی حالات بہتر ہو سکتے ہیں اور کشمیری عوام پر بھارتی فوج کا ایک عرصے سے جاری بہیمانہ تشدد کا سدباب ممکن ہو سکے گا بلکہ اس (کشمیر) کی آزادی کی راہ ہموار ہو جانے کی امید بھی پیدا ہو گی۔ کشمیری قیادت کے لیے یہ کسی طور ممکن نہ ہو گاکہ ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیریوں کے خلاف کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کرتی رہیں اور دوسری طرف بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ مذاکرات کے آغاز کے لیے بھارتی فوج کے ہاتھ روکنا اور کشمیری قیادت دوسری تمام شرائط پوری کرنا از حد ضروری ہے۔ اب کشمیری قیادت کو ان شرائط سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اگر بھارتی حکومت یہ پیشکش کرے کہ ان میں سے کچھ شرائط مان لی جائیں گی’ جبکہ دوسری نہیں تو کشمیری قیادت کو اس پر قطعاً رضامندی ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت اگر شرائط کے اس پورے پیکیج پر عمل درآمد کرائے تو ہی مذاکرات کا ڈول ڈالنا چاہیے اور زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ شرائط پر پیشگی عمل درآمد کی شرط بھی رکھی جائے۔
Indian Government
ورنہ اندیشہ ہے کہ بھارتی حکومت زبانی کلامی تو وعدے کر لے’ لیکن عمل درآمد کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دے’ جیسا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے بھارت نے وتیرہ بنا لیا ہے۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق قراردادیں منظور ہونے کے بعد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کئی بار ان پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں کرائیں’ لیکن پھر بھارت ان قراردادوں سے پیچھے ہٹتا چلا گیا’ حتیٰ کہ کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات سے بھی پہلوتہی برتنے لگا؛ چنانچہ بعید نہیں کہ کشمیری قیادت کی جانب سے پیش کردہ چار نکاتی شرائط کا بھی بھارت کی کائیاں قیادت ایسا ہی حشر کرے’ اس لیے کشمیری قیادت کو زیادہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کو بھی مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی فرصت مل ہی گئی۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے خود مذاکرات کرنے چاہئیں’ دنیا کے کسی اور ملک کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے بالکل درست فرمایا’ لیکن یہ مسئلہ اسی وقت حل ہو گا جب بھارت پاکستانی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے’ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بات چیت کی دعوت دیتا ہے’ لیکن بھارتی قیادت اس سے بچتی پھرتی ہے۔ ویسے تو برطانیہ مسئلہ کشمیر کا اس حوالے سے ایک فریق ہے کہ 1947ء میں برصغیر میں موجود برطانوی نمائندوں کی موجودگی’ بلکہ سازشوں کی وجہ سے یہ مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔ چلیں’ برطانیہ یہ مسئلہ حل نہ کرائے’ لیکن وہ نریندر مودی کو قائل تو کر سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے کور ایشو سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کر ے’ لیکن ایسا ہو گا نہیں’ کیونکہ نہ تو بھارت چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو اور نہ ہی برطانیہ یا امریکہ۔ اس لیے کشمیری قیادت کی یہ کوشش مناسب ہے۔
Indian Army
بھارت اگر مقبوضہ کشمیر سے اپنی افواج نکال لے’ بھارتی فوج کو قانونی چارہ جوئیوں سے بچانے کے لیے بنائے گئے کالے قوانین ختم کر دے’ نظر بند اور گرفتار تمام کشمیری عوام کو رہا کر دے اور مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کر لے تو مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اب تک بند رہنے والے دروازے کھل سکتے ہیں۔ پاکستان نے بھی ایک بار پھر اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں بیگناہ کشمیریوں کی ہلاکتوں اور قتل عام کی تحقیقات کرے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے اپنے میڈیا بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے حقائق جاننے کا مشن کشمیر بھیجنا چاہیے؛ چنانچہ یہ طے ہے کہ اقوام متحدہ اگر اس مسئلے کے حل میں دلچسپی لے تو یہ چند ہفتوں میں حل ہو سکتا ہے۔