اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ سے زیادہ مقامات پر بھارتی حملوں کی پیشگی اطلاع ملنے کی تصدیق کر دی۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ممکنہ بھارتی حملہ پانچ وجوہات کی بناء پر ناکام ہوا، افواج الرٹ تھیں، ہماری انٹیلی جنس اطلاعات پکی تھیں، سفارتی تعلقات اور ملٹری روابط نے بھارت کو حملے سے روکنے میں کردار ادا کیا اور سول اورملٹری قیادت آپس میں رابطے میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو کشیدگی انتہا پر تھی اور خدشہ تھا بھارت مزید کارروائی کرسکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ موجودہ صورت حال میں بہت متحرک رہے اور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کنٹرول لائن کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور پاک بھارت صورتحال پر امریکا ،چین اور برطانیہ سمیت اہم طاقتیں الرٹ ہیں۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت کو معاملات بات چیت سے حل کرنے کو کہہ رہی ہے اور ایل او سی پر شیلنگ میں قدرے کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مودی سرکار کے بیانیے کی قلعی کھل گئی ہے اور بھارت میں بھی تسلیم کیا گیا کہ ان کے دو طیارے گرے۔
او آئی سی اجلاس میں بھارت کے شرکت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ بھارت سرکار کہہ رہی تھی کہ سشما کو مدعو کرنا بہت بڑی کامیابی تھی، بھارت میں بیانہ مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے ہوا تھا لیکن پچھلی حکومت نیشنل ایکشن پلان پر ذمہ داری نبھاتی تو آج پاکستان گرے لسٹ میں نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے ہمیں وہ کرنا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہ فیصلہ کن وقت ہے، سیاسی اتفاق رائے سے فیصلے کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر تاثر ہوا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے، سلامتی کونسل کی قرارداد پر اقدامات کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے ، پاکستان میں اتفاق رائے اور بھارت میں تقسیم دکھائی رے دہی ہے کیوں کہ بھارتی اپوزیشن کانگریس نے مودی سرکار سے حملے کے تصویری ثبوت مانگے ہیں۔
وزیر خارجہ کا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کہنا تھا کہ قربانی کشمیر دے رہا ہے اور جنازے کشمیری اٹھا رہے ہیں لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل کی پیش رفت کشمیریوں کو آن بورڈ لئے بغیر نہیں ہوسکتی جب کہ پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے میں متاثرین شامل ہی نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت سنجیدہ ہے تو مقبوضہ کشمیر کی قیادت سے پہلے خود بات کرے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتا ہے اور جنگ نہیں امن چاہتا ہے، پاکستان بھارت سے تجارت اور آمدورفت چاہتا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے، بھارت اور اسرائیل کا آپس میں تعاون عرصے سے چل رہا ہے اور دونوں میں انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہوتی ہے۔
14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 45 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے حملہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا شروع کردیا تھا۔
اس کے بعد 26 فروری کو شب 3 بجے سے ساڑھے تین بجے کے قریب تین مقامات سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی جن میں سے دو مقامات سیالکوٹ، بہاولپور پر پاک فضائیہ نے ان کی دراندازی کی کوشش ناکام بنادی تاہم آزاد کشمیر کی طرف سے بھارتی طیارے اندر کی طرف آئے جنہیں پاک فضائیہ کے طیاروں نے روکا جس پر بھارتی طیارے اپنے ‘پے لوڈ’ گرا کر واپس بھاگ گئے۔
پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور بھارت کو واضح پیغام دیا کہ اس اشتعال انگیزی کا پاکستان اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر جواب دے گا، اب بھارت پاکستان کے سرپرائز کا انتظار کرے۔
بعد ازاں 27 فروری کی صبح پاک فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول پر مقبوضہ کشمیر میں 6 ٹارگٹ کو انگیج کیا، فضائیہ نے اپنی حدود میں رہ کر ہدف مقرر کیے، پائلٹس نے ٹارگٹ کو لاک کیا لیکن ٹارگٹ پر نہیں بلکہ محفوظ فاصلے اور کھلی جگہ پر اسٹرائیک کی جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ پاکستان کے پاس جوابی صلاحیت موجود ہے لیکن پاکستان کو ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جو اسے غیر ذمہ دار ثابت کرے۔
جب پاک فضائیہ نے ہدف لے لیے تو اس کے بعد بھارتی فضائیہ کے 2 جہاز ایک بار پھر ایل او سی کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کی طرف آئے لیکن اس بار پاک فضائیہ تیار تھی جس نے دونوں بھارتی طیاروں کو مار گرایا، ایک جہاز آزاد کشمیر جبکہ دوسرا مقبوضہ کشمیر کی حدود میں گرا۔
پاکستان حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ کو پاکستان نے حراست میں لیا جس کا نام ونگ کمانڈر ابھی نندن تھا جسے بعد ازاں پروقار طریقے سے واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔