28 مئی 1998ء پاکستان کی تاریخ کا وہ مبارک دن ہے جب پاکستان اپنے قیام کے تقریباً 50 سال بعد پہلی بار دنیا ئے عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوا۔ اس سے پہلے خطے میں طاقت کاتوازن بڑی حد تک خراب تھا۔ خصوصاً جب سے بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا’ اس وقت سے پاکستان غیرروایتی طاقت کے لحاظ سے عدم توازن کا شکار ہو گیا اور یہ عدم توازن اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب 11 مئی 1998ء کو بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کو زبردست توسیع دیتے ہوئے لگاتار 5 ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ اس کے بعد پاکستان نفسیاتی طورپر بھارت سے بہت زیادہ مرعوبانہ حالت میں آ گیا۔ حالت یہ ہو گئی کہ بھارتی حکمران اور انتہا پسند ہندولیڈر آزاد کشمیر اورپاکستان پر کھلم کھلا حملے اور پاکستان کانام و نشان مٹانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ یہاں تک کہ یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ اسرائیلی طیارے پاکستان پر حملہ کے لیے سرینگر پہنچ چکے ہیں۔
اب پاکستان کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو ان دھمکیوں کے آگے بزدلانہ طور پرسرنڈر کر جاتا اور پاکستان کو بھارت کی عملاً ایک کالونی بننے دیا جاتا یا پھر پاکستان ایک جرأتمندانہ کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کی ان دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتااور اس طرح پاکستان اپنے مستقبل کو بحمداللہ محفوظ کر لیتا۔ یہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ جس طرح آج ملک میں مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں نواز شریف کی حکومت ہے’اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف ہی برسراقتدار تھے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگرچہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کواپنی غیر معمولی قابلیت اور زبردست جذبۂ حب الوطنی کے ساتھ پاکستان کے مخلص ترین حکمران جنرل ضیاء الحق کے عہدسے ہی حیرت انگیز طور پر پایۂ تکمیل تک پہنچاچکے تھے۔ تاہم بادیٔ النظر میں اب حالات ایسے نظرآتے تھے کہ میاں نوازشریف صاحب ایٹمی دھماکہ شایدہی کریں۔
امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کی طرف سے زبردست عالمی دباؤ’ دھمکیاں اور ساتھ ساتھ تحریص کاعمل بھی جاری تھا’ پاکستان ک و لولی پاپ دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ اگر دھماکے نہ کرو تو تمہارے سارے قرضے معاف ہوجائیں گے۔ تمہیں اربوں ڈالر کی امداد ملے گی اور فلاں فلاں مراعات ملیں گی لیکن یہ اللہ کاخاص شکرہوا کہ زبردست عوامی دباؤ کے آگے میاں نوازشریف نے بالآخر ہتھیار ڈال دئیے اور قوم کی امنگوں کی پاسداری کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر کے ساتھ ایٹمی دھماکوں کاحکم دے دیا۔
نعرۂ تکبیر کے ساتھ ایٹمی دھماکوں کی گھن گرج کا فائدہ یہ ہوا کہ بھارت ‘اسرائیل اور امریکہ کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو گیا’ بھارتی حکمرانوں اورانتہاپسند ہندولیڈروں کی جھاگ بری طرح بیٹھ گئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ جب ایک مسلمان اللہ پر پورا بھروسہ کرتے ہوئے کام کرتا ہے تواللہ کے دشمنوں کو خاک ہی چاٹنا پڑتی ہے’اسی طرح یہ جو ڈرایا جا رہا تھا کہ ایٹم بم بنا کر شاید ہم دیوالیہ ہو جائیں گے اور گھاس کھانے پر مجبور ہو جائیں گے توالحمدللہ نعرۂ تکبیر کی برکت سے اور اللہ پر پورا بھروسہ کرنے کے نتیجے میں اوہام و خدشات کے یہ سب بت بھی چکناچور ہو گئے۔
پاکستان کو باور کرایا گیا کہ تمہارے پاس صرف ایک ارب ڈالرکے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ بھارت کے پاس اس وقت 22 ارب ڈالر کے ذخائر تھے لیکن دنیانے دیکھا کہ نعرۂ تکبیر کے ساتھ کیے گئے دھماکوں کی برکت سے پاکستانی قوم نے گھاس کھانے پر تو کیا مجبور ہونا تھا’اس کے زرمبادلہ کے ذخائرپہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئے۔ دوارب ڈالر پاکستان کے دیرینہ اور حقیقی محسن سعودی عرب کے شاہ فہد a نے فوری طور پر پاکستان کوعطیہ کر دئیے جبکہ بیرون ملک محب وطن پاکستانیوں نے بھی اس مشکل وقت میں پاکستان کواپنی رقوم اورڈالرز کی ترسیل میں بے پناہ اضافہ کر دیااوریوں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مختصر وقت میں ایک ارب ڈالر سے 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ پاکستان کے محسن اعظم سعودی عرب نے پانچ سال سے زائد عرصہ تک ملک کو تیل کی مفت ترسیل بھی جاری کر دی جس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا مزید فائدہ حاصل ہوا۔
Nawaz Sharif
محترم نواز شریف نے اس وقت اپنی یادگار نشری تقریرمیں قرآن پاک کی ان جہادی آیات کاحوالہ دیا۔ :
مسلمانو!ان (کافروں) کے لیے جہاں تک تمہارابس چلے'(جہادی) قوت تیار رکھو۔ تیار بندھے رہنے والے گھوڑے بھی کہ اس تیاری کے ساتھ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دہشت زدہ کر دوگے اور ان دوسرے دشمنوں کوبھی خوفزدہ کر سکو گے جوان کے علاوہ ہیں کہ جنہیں تم نہیں جانتے مگراللہ جانتا ہے۔”پھروزیراعظم صاحب نے اس آیت کواپنی تقریر کا موٹ و بنایا۔
ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ
”کہ اے اللہ ہم خالص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورخاص تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں”
میاں نواز شریف صاحب نے اپنی تاریخی تقریر میں اس بات کابھی بجا طور پر حوالہ دیا کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات” انہوں نے مثال کے طور پر جاپان کا ذکر کیا کہ اسے دوسری عالمی جنگ میں کس طرح ایٹمی حملے کا نشانہ بنا کر تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ اگراس وقت جاپان کے پاس بھی ایٹمی طاقت ہوتی تو کسی دشمن کواس پریوں آسانی سے حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ یہ اللہ پر بھروسہ کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے تعدادکے اعتبار سے بھی بھارت سے زیادہ ہوئے یعنی بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکوں سے جواب دیا’ اس طرح فنی اعتبار سے بھی پاکستان کے دھماکے طاقت کے لحاظ سے بھارت سے زیادہ بہتر ثابت ہوئے جو بھارت سے تین گنا تھے اوراس کا پوری دنیا کے ایٹمی ماہرین نے اعتراف کیا اور پھر یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ہمارے میزائل پروگرام کی برتری کو بھی دنیانے ہمیشہ مانا ہے۔
ان دھماکوں کی فوری برکت یہ سامنے آئی کہ بھارتی لیڈروں کی لمبی اور کالی زبانیں جو پاکستان کے خلاف زہراگل رہی تھیں’وہ یکایک خاموش ہو گئیں اور اب ان کے منہ سے شانتی شانتی اور”امن کی آشا” کی دہائیاں نکلنے لگیں۔ انتہاپسندبی جے پی کے لیڈر اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کواپنے بچوں کی فکر ستانے لگی اور وہ یہ التجائیں کرنے لگے کہ ”آئیے ماضی کو فراموش کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہتری اور فلاح وبہبود کے لیے سوچیں۔”
یوں اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی برکت سے ہندو لیڈروں کو اپنے بچے بلکہ بے بے تک یاد آ گئی۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ ہندو بنیا صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ آج ایک بار پھر وہی مئی اور وہی 28 مئی کی تاریخ آ پہنچی ہے۔ ملک کوایک بار پھر امن وامان ‘ترقی اور سلامتی کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور قائدین پاکستان نے پاکستان کامطلب کیالاالٰہ الااللہ کانعرہ لگا کر ہی یہ ملک حاصل کیا تھا لیکن پاکستان میں اسلام کا نفاذآج تک نہیں کیا جا سکا جو آج پاکستان کے مسائل کااصل سبب ہے۔ ایٹمی دھماکوں کی طرح اس معاملے میں بھی کسی عالمی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے فوری طور پر پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بناناچاہئے کیونکہ محض ایٹمی طاقت بنناایک اسلامی ریاست کااصل مقصدنہیں ہوتابلکہ اس طاقت کو غلبۂ اسلام کے لیے استعمال کرنا ہی اصل مقصد ہے اور جب تک یہ اصل اور بڑا دھماکہ نہ کیاجائے’ ایٹمی دھماکوں کا مقصد ادھورا ہی رہے گا۔ آج پاکستان کو بیرونی طور پر بھی بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔
بھارتی گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندرمودی کو اقتدار میں لایاجا رہاہے۔ مودی ابھی اقتدار میں آیا نہیں لیکن بھارتی مسلمانوں کو ہندؤوں کی بستیاں خالی کرنے کی دھمکیاں ملنا شروع کر دی گئیں۔اسی طرح تمام بھارتی سیاسی جماعتوں نے چاہے وہ کھلی انتہاپسندہوں یا نام نہادسیکولر’ انتخابات میں پاکستان کو اپنے نشانہ پر رکھا۔ دوسری طرف پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں اور ایک بڑے میڈیا گروپ کی طرف سے بھارت دشمنی کے جذبات کو بیدار رکھنا تو دورکی بات ہے’الٹا”امن کی آشا”کے نام پر بھارت کو ہمارے سرپر چڑھایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں افغانستان کے درجنوں بھارتی قونصلیٹ کے ذریعے بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کو تویہ میڈیا بے نقاب نہیں کرتا لیکن چند دہشت گردوں پر ہماری فوج ہاتھ ڈالتی ہے توالٹااسی فوج اور آئی ایس آئی۔ کوکٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کیاایسی مثال بھارت یاد نیا کے کسی اور ملک میں مل سکتی ہے کہ کسی ملک کااپنا میڈیا ہی آزادیٔ اظہار رائے کی آڑمیں اپنی فوج کوہی تختۂ مشق بنائے اور یوں ملک کو بدنام کرنے کی کوششوں میں وہ دشمن کے ساتھ برابر کھڑا نظرآئے۔ آج ایک بار پھراس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کی قومی خودمختاری اورشان وعزت کی بحالی کے لیے’ اپنی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اور اپنے اندرونی وبیرونی دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے حکومت 28مئی1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے بھی بڑا دھماکہ اورکرے جس سے ان اندرونی وبیرونی اور خفیہ واعلانیہ دشمنوں اور منافقوں کوچھٹی کا دودھ یاد آ جائے اور انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ پاکستان کی طرف کوئی دشمن نہ میلی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے نہ پاکستان کے اندر شکیل آفریدی جیسے غداروں کو برداشت کیاجا سکتا ہے۔
میاں نواز شریف کی حکومت جس نے خودایٹمی دھماکے کیے اور پھر وہ خودہی بھارت کی خوشنودی اور دوستی کی اندھی شاہراہ پر چل کھڑی ہوئی’اب میاں صاحب نے ایک عرصہ تک بھارت سے دوستی کرکے خود دیکھ لیاکہ پاکستان کو اس میں خسارے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ ہندوبنئے کواتنا سادہ نہ سمجھاجائے کہ وہ پاکستان کا کوئی فائدہ کبھی ہونے دے گا۔ اس لیے اب ان تجربات کو کافی سمجھناچاہئے اور بھارت سے اب یکطرفہ دوستی کی پالیسی ترک کر کے برابری کی بنیادپر تعلقات استوار کیے جائیں۔ کشمیر کے مسئلے کو سب سے پہلے حل کرنا چاہئے۔ مذاکرات اوردوستی دوستی کے منافقانہ کھیل کواب تک بہت وقت مل چکا۔ بھارت نے اسے صرف وقت گزاری کے لیے استعمال کیا اور اس دوران وہ ہمارے دریاؤں پراپنے سینکڑوں ڈیم بنانے لگا جس سے پاکستان کووہ مستقبل قریب میں صحرا بنانے کے بھیانک مشن پرعمل پیراہے۔ اب ان بھارتی سازشوں کا توڑ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کے عسکری حل پر پورا زور لگا دیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔
Kashmir
اگر روس یوکرائن میں محض اس بنیاد پر مداخلت کر سکتا ہے کہ وہاں روسی زبان بولنے والوں پر ظلم ہو رہا تھا تو پاکستان کو مقبوضہ جموں کشمیر میں مداخلت کااس سے کہیں زیادہ حق ہے کہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے رشتے تو زبان کے رشتے سے بھی بہت زیادہ وسیع ہیں۔ کشمیری اورپاکستانی دونوں ایک ہی مذہب اورایک جیسی ثقافت اوررہن سہن کے بے شمار رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں اور پھر کشمیر اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ متنازعہ مسئلہ ہے۔اس لیے اب حکومت اور فوج کوایک بارپھر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے بڑا ایٹمی دھماکہ کر دیناچاہئے۔ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی ڈر’خوف اور لومة لائم کی پروانہ کی جائے۔ وسائل اور تعدادکی کمی نہ کل کبھی مسلمانوں کے لیے سدّراہ بنی تھی’نہ آج بن سکتی ہے’بلکہ اس راہ پر چل کر جس طرح اللہ نے کل وسائل کے منہ کھولے تھے’اللہ عزوجل اس سے بھی زیادہ ہمیں وسائل اور کامیابیوں سے نواز سکتاہے۔ شرط صرف وہی ہے۔ :
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا