تحریر : سید توقیر حسین امریکہ کو ادراک ہونا چاہیے کہ وہ بھارت کی سرپرستی کرکے علاقائی اور عالمی امن سے کھیل رہا ہے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران امریکہ اور بھارت کے مابین طے پانے والے فوجی’ دفاعی اور ایٹمی تعاون کے معاہدوں کا نوٹس لیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ مودی حکومت کے دو سال کے دوران بھارت میں حقوقِ انسانی اور مذہبی آزادی کی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے’ اس سلسلہ میں ہیومن رائٹس واچ کے ایشیاء ایڈوکیسی کے ڈائریکٹر جان سفنان نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے معاملہ میں پیدا ہونیوالے مسائل کو بھی پیش نظر رکھے۔ انکے بقول جب تک مودی انتظامیہ کی جانب سے مو?ثر اقدامات نہیں کئے جاتے اور انصاف کی رسائی کو یقینی نہیں بنایا جاتا تب تک بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کسی نمایاں تبدیلی کا امکان نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام شہریوں کو جوابدہ اور حساس طبقات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں قوانین اور پالیسیوں پر عملدرآمد کے فقدان کی وجہ سے وہاں کی صورتحال مسلسل ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ انکے بقول فوج اور پولیس اہلکار قانون کے سہارے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور ان کیخلاف سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاتی۔
بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ تو 1948ء میں بھارتی فوجوں کے کشمیر پر بزور تسلط جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اس بھارتی جبر کیخلاف انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور دوسرے عالمی اداروں کے علاوہ خود بھارت کے اندر سے بھی اسی وقت سے آوازیں بلند ہونے کا سلسلہ شروع ہوا مگر مہابھارت کے ایجنڈا کے تحت بھارتی لیڈران نے آج تک کسی ردعمل اور کسی احتجاج کو درخوراعتناء نہیں سمجھا۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کی تشکیل کو بادل نخواستہ قبول کرنیوالے ہندو لیڈران نے تقسیم ہند کے ایجنڈا کے مطابق مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیکر کشمیری عوام کے حقوق سلب کرنے کی بنیاد رکھی اور پھر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کو مسترد کرکے بھی کشمیریوں کے حقوق پر ضرب لگائی۔ جب کشمیری عوام نے بھارتی ہٹ دھرمی کو بھانپ کر اپنے حق خودارادیت کیلئے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا تو بھارتی افواج اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں نے ان پر ظلم و جبر کا بازار گرم کرنا شروع کردیا اور اس دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کوئی بھی ہتھکنڈہ ایسا نہیں ہوگا جو کشمیری عوام پر نہ آزمایا گیا ہو۔ مگر کشمیری عوام نے صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور جانی و مالی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کا سفر جاری رکھا۔
Occupied Kashmir
مقبوضہ کشمیر کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اس سلسلہ میں گزشتہ سال جو رپورٹ جاری کی اسکے مطابق پانچ لاکھ کے قریب نہتے اور بے گناہ کشمیری عوام بشمول خواتین اور بچے بھارتی فوجوں کے ظلم و تشدد کی بھینٹ چڑھ کر اپنی زندگی کا سفر ختم کرچکے ہیں جبکہ بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کی داستانیں تو لرزہ خیز ہیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان داستانوں کی بنیاد پر ہی کچھ عرصہ قبل اپنا وفد مقبوضہ کشمیر بھجوایا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کی نشاندہی کرکے اور کشمیری عوام بالخصوص خواتین اور بچوں پر بھارتی فوجوں کے مظالم کی عکاسی کرکے پوری دنیا کو لرزا دیا تھا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے یورپی یونین کے رکن ممالک کیلئے بھارتی تجارت پر چھ ماہ کی پابندی عائد کی تھی اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی’ اسکے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی ظلم و جبر کا سلسلہ برقرار رکھا جبکہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیکر آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیری عوام کے رائے دہی کے حق کو بھی سلب کیا گیا۔ پاکستان کیساتھ اس کا تنازعہ بھی کشمیر پر اسکے تسلط کے باعث ہی پیدا ہوا جبکہ بھارت نے یہ تسلط پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے جمایا تھا جو اس خطہ میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے اور پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر بھارت نے عالمی دبائو کے باوجود آج تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونے دیا اور وہ کسی بھی سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کے دوران کشمیر کا لفظ سننے کا بھی روادار نہیں ہوتا تو اسکی جانب سے انسانی حقوق کی پاسداری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ دنیا کو انسانی حقوق کی پاسداری کا درس دینے والے امریکہ کو بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں خود انسانی حقوق کی پاسداری یاد نہیں رہتی اور باوجود اسکے کہ بھارتی جنونیت اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم سے علاقائی اور عالمی امن کو سنگین خطرات درپیش ہیں جس کا خود امریکہ کو بھی ادراک ہے مگر وہ بھارت کو فطری فوجی اتحادی قرار دے کر اور اسکے ساتھ تجارتی ہی نہیں’ ایٹمی دفاعی اور فوجی تعاون کے بھی معاہدے کرکے اسکی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کی سرپرستی کررہا ہے اور اسے علاقے کا تھانیدار بنا کر خطے کے امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کررہا ہے۔ چہ جائیکہ امریکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کی بنیاد پر بھارت پر یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو ڈالے اور بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاء پسندی پر’ جس کا مشاہدہ امریکی صدر اوبامہ خود بھی اپنے دورہ? بھارت کے دوران کرچکے ہیں’ بھارت کو شٹ اپ کال دی جاتی’ اوبامہ انتظامیہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو واشنگٹن مدعو کرکے وائٹ ہائوس میں پورے پروٹوکول کے ساتھ انہیں تھپکی دی اور بھارت کو امریکہ کا فطری فوجی اتحادی قرار دیکر انکے ساتھ سول نیوکلیئر اور فوجی تعاون کے نئے معاہدے کئے اور انہیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیاں کرنے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف مزید سازشیں کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران اس صورتحال کا امریکی کانگرس کے 18 ارکان نے بھی نوٹس لیا اور صدر اوبامہ کو باور کرایا کہ مودی کے ساتھ بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کا معاملہ بھی اٹھایا جائے۔
Human rights in India
اب ہیومن رائٹس واچ نے بھی مودی کے حالیہ دورہ? امریکہ کے تناظر میں اوبامہ انتظامیہ کو بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی ابتر ہونیوالی صورتحال سے آگاہ کیا ہے تو اس کا یقیناً پس منظر بھی موجود ہے۔بھارتی انتہاء پسند ہندوئوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کے موجودہ اقتدار کے دو سال کے دوران مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں بشمول سکھوں اور عیسائیوں کا جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا ہے’ انہیں حکومتی ایماء پر جبری ہندو بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور جس طرح بے گناہ مسلمانوں کو گائے کا گوشت رکھنے یا کھانے کے محض شبہ میں بے دردی سے قتل کرنے کی جنونیت برپا کی گئی ہے’ اس پر خود بھارت کے اندر مختلف طبقات زندگی کے لوگوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ کئی بھارتی دانشوروں اور سابق فوجیوں نے بھارت کے حاصل کردہ اعلیٰ سرکاری ایوارڈز واپس کئے ہیں جو دنیا کیلئے واضح پیغام ہے کہ مودی سرکار مذہبی عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھا کر اور کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ برقرار رکھ کر اپنے معاشرے کو جس ڈگر پر لے جارہی ہے اس سے سوائے انسانی تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چنانچہ اسی تناظر میں امریکی کانگرس کے 18 ارکان اوبامہ انتظامیہ سے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ مودی کے ساتھ اٹھانے کا تقاضا کررہے ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی اوبامہ انتظامیہ کو بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی ابتر صورتحال سے آگاہ کیا ہے’ اسکے باوجود امریکہ نے بھارت کی جانب فوجی اور نیوکلیئر معاونت کا ہاتھ بڑھایا ہے تو یہ امریکہ کے منافقانہ طرزعمل کا ہی عکاس ہے جس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہونگے اور وہ علاقائی امن و سلامتی کی پاسداری نہیں کریگا تو اس سے بھارت کے ہاتھوں علاقائی و عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالے نئے خطرات کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہی عائد ہوگی۔ ایسا ممکن نہیں کہ بھارت اپنے تئیں علاقے کا تھانیدار بن کر کھل کھیلتا رہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ خطے کے جن ممالک کی سلامتی کیخلاف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ ہوا ہے’ وہ اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کی خاطر اس گٹھ جوڑ کا توڑ کرنے کا جواز بھی رکھتے ہیں اس لئے علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے داعی اور انسانی حقوق کے چیمپئن امریکہ کو بھارت کی معاونت و سرپرستی کرتے ہوئے اسکے سودوزیاں کا بھی ادراک کرلینا چاہیے۔