کوا چلا ہنس کی چال۔ ۔ ۔

India

India

تحریر: میر افر امان، کالمسٹ
آجکل بھارت کے حکمران پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہم مریدکے پر حملہ کر کے اپنے مجرم گرفتار کر کے لے جائیں گے اُن کے ایئر چیف نے دھمکی دی ہے کہ ہم آزاد کشمیر میں قائم دہشت گردی کے کیمپوں پر برما جیسی کاروائی کر کے دہشت گردی کے کیمپ تباہ کر دیں گے۔ ہمارے نام نہاد دوست امریکانے ایبٹ آباد میں کاروائی کرکے اسامہ بن لادن کومار دینے اور اس کی لاش کو گرفتار کے سمندر بُرد کیا تھا جو شک و شبہ سے خالی نہیں۔تجزیہ کا رکہتے ہیں اُسامہ تو بہت پہلے گردوں کی بیماری کی وجہ سے مر چکا تھا۔

اوباما کو دوسری دفعہ صدارت کا الیکشن لڑنا تھا جس کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا تھا۔فرض محال ا گر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ تو امریکا نے کیا تھا جو دنیا کی سپر پاور ہے جس کا ورلڈ آڈر دنیا میں چلتا ہے پاکستان امریکا سے جھنگ نہیں چھیڑ سکتا تھا ۔ بھارت ایسا کیسے کر سکتا ہے پاکستان بھارت کے برابر کی ایٹمی قوت ہے کیا بھارت نے پاکستان سے مار کھانی ہے۔پاکستان نے تو بر ملا کہہ دیا ہے کہ اگر بھارت نے ایسی حرکت کی تو بھارت کو بھر پورجنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ صاحبو!بنیا بڑا ہوشیار ہے اس نے محسوس کیا کہ پاکستان اس وقت دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے فاہدہ اُٹھانا چاہتا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جاری ضرب عضب مہم کو نا کامیاب کرنا چاہتا ہے۔

دہشت گردی کی جنگ کی جس میں پاکستان کو بھارت نے بڑی مہارت سے پھنسایا ہوا ہے۔فاٹا میں طالبان کو اُس نے ٹرنینگ دی ان کی مالی مدد کی اور اب بھی وہ ان کی مالی مدد کر رہا ہے۔ اس کا ذکر جنرل(ر) شاہد عزیر صاحب نے اپنی کتاب” یہ خاموشی کب تک” میں کیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی رپورٹ ڈکٹیٹر مشرف کو دی گئی تھی مگر اس نے اس کو نہیں روکا تھا۔اسی کتاب میں افغانستان سے بلوچستان میں اسلحہ آنے کا بھی ذکر ہے مگر ڈکٹیٹر مشرف نے اس پر بھی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے پاکستان ابتک خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف کی ان حرکتوں کی وجہ سے کور کمانڈر بھی اُس سے خفا تھے۔

کاش کہ راحیل شریف صاحب اس جرم کی ڈکٹیٹر مشرف سے باز پرس کریں۔ جب پاکستان کی مسلح افواج نے طالبان کے خلاف سخت کاروائی کی تو وہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش ہو گئے ہیں وہاں سے وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی ہدایت پرپاکستان کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول اور چنددن پہلے بڈھ بیرحملہ اسی سازش کے تحت کیا گیا تھا پہلے حملے کے ثبوت ہمارے سپہ سالار نے خود اشرف غنی خود دیے تھے اور آخر الذکر حملے کے بھی ثبوت عین موقعے پر ٹریس کر لیے گئے تھے جن کا بر ملا اظہار کیا گیااور افغانستان کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔

افغانستان کا صدر حق نمک حلالی ادا کرتے ہوئے بھارت کی بولی بول رہا ہے ۔کہتا ہے کہ پاکستان سے ایک ریاست جیسے تعلوقات ہیں برادارانہ نہیں ہیں اگر برادرانہ نہیں تو اپنے لاکھوںمہاجرین کو واپس لے جائو۔ وہ پاکستان میں تیس سال سے برادرارنہ سلوک کی وجہ سے تو ہی رہ رہے ہیں ،کاروبار کر رہے ہیں اور پاکستان میں پراپرٹیاں خرید رہے ہیں ایسی توتا چشمی کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ کراچی میں بھارت ایم کیو ایم کی مدد کر رہا ہے۔ایم کیو ایم کے سربراہ نے را سے مدد مانگی تھی را سے مالی امداد تو بی بی سی نے بھی اپنے پروگرام میں رپورٹ آزاد دنیاکے سامنے رکھی تھی۔بھارت سے ٹرنینگ لے کر انے والوں کو رینجرز آئے روز گرفتار کر رہے ہیں اور ان پر گرفت سخت کر رہے ہیں۔پاکستان نے بھارت کی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو بھی دیے ہیں دوست ملکوں کو بھی ثبوت دیے ہیں تاکہ بھارت کا مکار چہرہ اقوام متحدہ اور آزاددنیا کے سامنے آئے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو ہم نے توڑا ہے اور بنگلہ دیش بنایا ہے۔

Pakistan

Pakistan

بھارت پاکستان کے ٹکرے ٹکڑے کر کے اکٹھنڈ بھارت بنانا چاہتاہے۔بھارت لائن آف کنٹرول اورورکنگ بائونڈری پر آئے دن جارحیت کرکے پاکستانیوں کو شہید کر رہا ہے گو کہ ہمارے سپہ سالار نے وہاں کا دورہ کیا اور پاکستان کی باڈر سیکورٹی فورسز فوج کی طرف بروقت جوابی کاروائی کو سرایا بھی ہے اور شہید ہونے والوں پاکستانیوں اور زخمی کی عیادت بھی کی ہے اور اُن کے حوصلے اور ڈٹ جانے کی تعریف بھی کی مگر بھارت پاکستان پر ہر طرف سے دبائو بڑھا رہا۔

اس کی پوری حکومتی مشینری اور بھارت کا میڈیا پاکستان کے خلاف محاز کھولے ہوئے ہے۔ گرم اور کولڈ لڑائی کی باتیں بھارت کی طرف سے آ رہی ہیں جس پر ہمارے سپہ سالار نے یوم آزادی کے موقعے پر جوابی وار کرتے ہوئے ہر قسم کی محاذآرائی کا جواب دینے کے لیے تیار رہنے کا کہا ہے جس سے قوم کو حوصلہ ملا ہے۔ہمارے سپہ سالار نے بیرون دنیا دورے پر بھی بھارت کو للکارا ہے اور اس بات کو پھر سے دورایا ہے کہ کشمیر پاکستان کا نا مکمل ایجنڈاہے اس کے بغیر بھارت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے برطانیہ کو بھی کہا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی مدد کو کنٹرول کرے۔اس کا اشارہ ایم کیو ایم کو برطانیہ کے راستے را سے فنڈنگ کے حوالے سے ہے۔

دہشت گردی کے خلاف حکومت پاکستان کی صحیح حکمت عملی کی وجہ سے اس وقت تمام دنیا پاکستان کی تعریف کر رہی ہے امریکا کے نمائندے نے بھی پاکستان میں پریس کانفرنس کر کے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کاروائی کی حمایت کرتے ہیں اور ضرورت پر مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں اس سے بھارت کے ہوش حواس اڑ گئے ہیں وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اُس کا دبائو پاکستان پرکار گر ہو رہا ہے مگر ایسا ہر گز نہیں ہے اس وقت نواز شریف بھی معاملے کی طے تک پہنچ گئے ہیں اور کشمیر کو ایک سائڈ پر رکھ کر آلو پیاز کی تجارت کی باتیں اب ختم کر دیں ہیں اور اقوام متحدہ میں اپنے چارنکات کی پیش کش کر کے بھارت کو دفاعی پوزیش پر لے آئے ہیں گو کہ ابھی بھی بھارت کی بل نہیں اترے اور نواز شریف کے چار نکاتی پروگرام کر رد کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں شمسا سوراج نے اپنی تقریر میں کہا کہ کہ دہشت گردی ختم کرو چار نکاتی فارمولے کو چھوڑو۔پاکستان نے بھارت کے خلاف کوئی دہشت گردی نہیں کی بھارت خود کشمیر میں دہشت گردی کر رہا ہے۔

سیکولر کا دعویٰ کرنے والابھارت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہا کشمیری قیادت کوجمعہ کی نماز سے روک رہا ہے۔گائے کو( زبیع) کرنے پر پابندی لگا دی ہے دہلی کے قریب ایک گائوں میں مسلمان کے گھر میں گائے کے گوشت رکھنے کے شک پر بھارت کے جنونیوں نے مندروں سے اعلان کر ایک مسلمان، جس کا بیٹا بھارت کی ایئر فورس کا ملازم ہے ،کو بے دردی سے شہید کر دیا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کے مقابلے جارحانہ روایہ اپنا چاہیے۔ اگر وہ ممبئی حملے کے ملزمان کے لیے پاکستان کے اندر کاروائی کی باتیں کر کے پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے تو ہمیں بھی سمجھوتا ایکپریس کے ملزمان کی بات کرنی چاہیے۔ قائد اعظم کے خلاف سازش میں ایڈوانی پر مقدمہ چلانے اور انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے بھارت سے مانگنا چاہیے۔پاکستان اس وقت نہ تو ١٩٦٥ء جیسا ہے اور نہ ہی ١٩٧١ء جیسا ۔بھارت پاکستان پر دبائو بڑھانے کی پالیسی ختم کرے اور امریکا جیسی کاروائی کی باتیں کر کے اپنے لیے مشکلات پیدا نہ کرے ۔اپنے خلاف دنیا میں مذاق نہ بنائے ورنہ لوگ کہیں گے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی ہی بھول گیا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمست کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)