بھارت کی حکمران جماعت بے جی پی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 ختم کرکے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے ، تب سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں جد و جہد ِ آزادی میں مزید جان پڑ گئی ہے بلکہ پاکستانی عوام اور حکمرانوں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔حکومت اپنی بساط بھر سفارتی کو ششوں کے زریعے اقوامِ عالم کو کشمیر کے بارے میں حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ، مگر لگتا ہے کہ عالمی برادری اس سنگین مسئلہ کو وہ توجہ نہیں دے رہی ہے،جس کی وہ مستحق ہے۔اس معاملہ میں مسلم ممالک کا رویہ بھی نہایت افسوسناک ہے۔ با ایں وجہ آج کل حجروں،مسجدوں اور محفلوں میں یہ سوال زبانِ زدِ عام ہے کہ کشمیر کا کیا بنے گا ؟ اگر چہ اس کا درست جواب دینا مشکل ہے مگر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عالمی برادری اس معاملہ میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ، اب جو کچھ کرنا ہے وہ پاکستان نے کرنا ہے یا خود کشمیریوں نے کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت چونکہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں ۔اس لئے ان کے درمیان جنگ کا ہونا بعد از قیاس ہے۔
البتہ بھارت کو ناکوں چنے چبوانے اور کشمیریوں کی مدد کے لئے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ راستہ ہے ، گوریلا جنگ کا۔ گوریلا جنگ یا چھاپہ مار جنگ ایک ایسی جنگ ہوتی ہے جہاں عموما ایک چھوٹی مگر متحرک طاقت کسی بڑی مگر کم متحرک روایتی طاقت یا فوج کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ ایسی جنگ میں عام طور پر چھپ چھپ کر حملے کر کے نقصان پہنچایا جاتا ہے اس میں حتی الوسع کھلی لڑائی نہیں کی جاتی۔جس علاقے میں یہ جنگ لڑی جاتی ہے ،اگر وہاں کے باشندے چھاپہ مار طاقت کا ساتھ دے رہے ہوں تو کامیابی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔اس وقت کشمیر کی صورتِ حال ایسی ہے کہ عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں ، وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔وہاں کے بہت سارے نوجوان بھارت کے خلاف لڑنے اور جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے جان ہتھیلی پر لئے ہوئے تیار بیٹھے ہیں۔ اگر انہیں اوپری سطح پر منظم و مربوط سیاسی اور فوجی حربہ کار میسر ہو جائیں اور نچلی سطح پر چھوٹی اکایئاں انتہائی متحرک ہوں تو تھوڑے عرصہ میں بھارت کی فوج تھک ہار کر حوصلہ ہار جا ئینگی۔اس کی مثالیں چین میں ماوزے تنگ کی جنگ، ویتنام میں امریکی فوج کے خلاف جنگ،افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے خلاف کاروائیاں شامل ہیں۔
بِلا شک و شبہ پاکستانی افواج کا شماردنیا کی ایک بہترین طاقت میں شمار ہوتی ہے مگر موجودہ صورتِ حال میں بھارت کے ساتھ کھلی جنگ کا اقدام دانشمندانہ اقدام نہیں ہو گا۔ سفارتی محاذ پر اس وقت اگر چہ کوششیں جاری ہیں مگر شاید وہ ثمر آور ثابت نہ ہوں۔ ایسی صورتِ حال میں ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ کشمیریوں کو آزادی حاصل کرنے کے لئے اخلاقی اور تیکنیکی مدد فراہم کرکے گوریلا جنگ شروع کی جائے۔جس کے نتیجہ میں بھارت کشمیر کو آزاد ریا ست تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کشمیریوں کی جد و جہد آزادی میں نئی روح ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔آج مقبوضہ کشمیر کے مسلمان جس ظلم و ستم اور لا چارگی کا شکار ہیں،پہلے کبھی نہ تھے، بیلیٹ گنوں کا استعمال اور ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری مسلمانوں کی شہادت اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات اگر عالمی ضمیر کو جھنجوڑ نہیں سکتی تو پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ، وہ راستہ ہے۔
گوریلا جنگ کا ، اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلاجاتا تو پھر انگلیاں ٹیڑھی کرکے گھی نکالنا ہو گا۔اب وقت ہے، کشمیر کی آزادی کا، اب وقت ہے ایکشن لینے کا ،اب وقت ہے بھارت کے ظالمانہ اقدام کو ریورس کا ، ہم اپنے قائد، قائد اعظم کا یہ قول کبھی نہیں بھول سکتے کہ کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے اور ہم موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس دو ٹوک اعلان کی بھی مکمل تایئد کرتے ہیں کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔کشمیر بنے گا پاکستان۔مگر اس کے لئے کشمیریوں کو گوریلا جنگ کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا ۔جس طرح افغانیوں نے گوریلا جنگ کے ذریعے روسی افواج کو افغانستان سے باہر پھینک دیا تھا ، اسی طرح بھارتی افواج کو بھی کشمیر سے باہر پھینکنے کے لئے گوریلا جنگ شروع کرنے کی گھڑی آ پہنچی ہے۔