بھارت (جیوڈیسک) عام انتخابات میں حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے مالیگاوں بم دھماکہ کی ملزم سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنانے کے بعد سے ہی ان کے متنازعہ بیانات سے بھارتی سیاست میں شدت پائی جاتی ہے۔
دوسری طرف اپنی پارٹی کا امیدوار بنائے جانے پرسادھوی کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ یہ ہندووں کو دہشت گرد بتانے والوں کو ’’علامتی جواب ہے۔‘‘
سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر نے اپنے تازہ ترین بیان میں بابری مسجد کے انہدام میں اپنی شمولیت پر فخریہ لہجے میں کہا’’میں اسے توڑنے گئی تھی۔ میں نے ڈھانچہ(مسجد) پر چڑھ کراسے توڑا۔ مجھے انتہائی گرو(فخر) ہے کہ ایشور نے مجھے اوسر(موقع) دیا اور شکتی دی اور میں نے یہ کام کردیا۔ میں نے دیش کا کلنک مٹا دیا۔‘‘
اس سے قبل ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سادھوی نے 2008 میں ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے دوران حملہ آوروں سے لوہا لیتے ہوئے سینئر پولیس افسر اور انسداد دہشت گردی دستے کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی موت کواپنی ’بددعا‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا ۔ اس بیان پر پولیس افسران کی تنظیم‘ سابق فوجی افسران اور متعدد سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے سخت اعتراض اور مذمت کے بعد سادھوی سے یہ کہا تھا کہ وہ اپنا بیان واپس لیں۔
اس مطالبے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’اگر میرے بیان سے دشمن کو فائدہ ہوتا ہے تو میں معافی مانگ لیتی ہوں۔‘‘ ہیمنت کرکرے نے ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تفتیش کے دوران ہندو انتہاپسندوں کے بھارت اور اس کے باہر پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو اجاگر کیا تھا ۔ اس نیٹ ورک میں آر ایس ایس کے اہلکار ، فوجی افسران، ڈاکٹراور سادھو وغیرہ شامل تھے۔
بابری مسجد انہدادم کے حوالے سے سادھوی کے تازہ بیان کو مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مدھیہ پردیش کے چیف الیکٹورل افسر نے انہیں نوٹس جاری کردیا ہے۔ اس سے پہلے کرکرے کے حوالہ سے بیان دینے پر بھی انہیں نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کا ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا ہے۔
بی جے پی نے اڑتالیس سالہ سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر کو مدھیہ پردیش کے بھوپال سے کانگریس کے سینئر رہنما او ریاست کے سابق وزیر اعلی دگ وجے سنگھ کے خلاف اپنا امیدوار بنایا ہے۔ سادھوی کے خلاف مالیگاوں بم دھماکہ‘ جس میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے‘ سمیت کئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ وہ فی الحال صحت کی بنیاد پر ضمانت پر ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ موجودہ عام انتخابات میں حکمراں بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ترقی کے اپنے دعووں سے رائے دہندگان کومتاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں، اس لئے انہوں نے ہندو ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے پہلے قوم پرستی اور اب شدت پسند ہندو ازم یعنی ’ہندوتوا‘ کارڈ کھیل دیا ہے۔
دریں اثنا سادھوی پرگیا سنگھ نے کہا کہ بابر ی مسجد کے حوالہ سے اپنے بیان پر قائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا’’ہاں میں اجودھیا گئی تھی۔میں منع نہیں کررہی ہوں۔میں نے ڈھانچہ توڑا تھا۔میں وہاں جاکر رام مندر کی تعمیر میں بھی مدد کروں گی۔ ہمیں ایسا کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ رام راشٹر(قوم) ہیں ،راشٹر رام ہے۔‘‘
معروف صحافی برکھا دت نے اپنے مضمون میں لکھا ہے’’پرگیہ ٹھاکر کو امیدوار بناکر بی جے پی نے انتخابی مہم میں یقینی تبدیلی پیدا کی ہے اور اب ڈیمونیٹائزیشن کی وجہ سے پچھلے دو برسوں کے دوران پچاس لاکھ بھارتیوں کی نوکری چلے جانے کی رپورٹ پر کوئی بات نہیں کررہا ہے اور نہ ہی حکومت کے دیگر امورپر کوئی بول رہا ہے۔ اب ہر کوئی صرف بھوپال کے امیدوار کے انتخاب پر بی جے پی کی پسند، آئینی ضابطوں کی توہین اور خلاف ورزی کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔‘‘